الوداع جہاد، خوش آمدید سیاست


اپنائیت سے بھرپور نرم لب و لہجے میں نپی تلی گفتگو مگر اس مرتبہ غیر معمولی احتیاط کا تاثر باربار ابھرتا رہا، عدالتی حکم پر نظر بندی کے خاتمے کے بعد مخصوص صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے حافظ سعید اس بات پر افسردہ تھے کہ ان کی نظربند ی کے باعث جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالے سے بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوگیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ہم سال 2018ء کو کشمیر کی آزادی کے سال کے طور پر منائیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی شکوہ تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت عالمی برادری خصوصاً امریکا کو گمراہ کرنے میں محض اس لئے کامیاب ہوا کیونکہ حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ کے حکام اپنا مقدمہ اچھی طرح سے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک آزادی کو نئی زندگی ملی ہے اور اب بھارت بے حد مشکل میں ہے۔ بھارت کی لابنگ کے سبب پیدا ہونے والے امریکی دباﺅ کو اپنے خلاف کارروائی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زبردست بین الاقوامی دباﺅ کے باوجود پاکستان کی عدلیہ نے میرٹ پر فیصلے کیے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے بنک اکاﺅنٹس منجمد کرتے ہوئے پنشن بھی روک دی گئی جو ہر لحاظ سے حیرت انگیز بات تھی۔ ایک طرف تو مجھے خود حکومتی حلقوں سے باربار بتایا جارہا تھا کہ میری جان کو خطرات لاحق ہیں اور دوسری جانب میرے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کردیئے گئے۔ حافظ سعید کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے میرے سر کی ایک کروڑ ڈالر قیمت مقرر کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ نہ تو میں کہیں چھپا ہوا ہوں نہ ہی مفرور۔ ہمارے فلاحی کام بھی پورے زوروشور سے جاری ہیں جس کا پوری دنیا اعتراف کرتی ہے۔

حافظ صاحب نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ جماعة الدعوة کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا مہم کا اصل ہدف پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانا ہے۔ حافظ سعید اس بات پر بہت خوش نظر آئے کہ ان کی عدم موجودگی میں بھی تنظیم نے ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت کھڑی کر کے لاہور کے حلقہ این اے 120 میں بھرپور طریقے سے الیکشن میں حصہ لیا۔ جب ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ ایک بالکل نئی جماعت لبیک یارسول اللہ کے امیدوار نے ملی مسلم لیگ کے امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تو حافظ صاحب نے فوری تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ محض 1000 ووٹوں کا فرق تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی نظر بندی کے عرصے میں بعض اور گروہ ابھرآئے ہیں جو مسلک کے نام پر سیاست ہی نہیں بلکہ احتجاج بھی کرتے ہیں تو حافظ صاحب نے کہاکہ فیض آباد میں ہونے والا حالیہ دھرنا اصولوں کی بنیاد پر تھا۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ ختم نبوت کے حساس معاملے میں ہرطرح کے شکوک و شبہات پہلے ہی رفع کردیتی اور احتجاج کی نوبت ہی نہ آنے دیتی۔

اپنی تنظیم کیلئے سابق فوجی آمر جنرل مشرف کی جانب سے تعریفی کلمات پر حافظ سعید نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے جنرل مشرف ہمارے کاموں کے بہت بڑے مداح ہیں ان کی جانب سے ہمارے لیے اچھے الفاظ بہر طورحوصلہ افزائی کی بات ہے۔ شرکائے محفل نے اس موقع پر قدرے تیکھے سوالات کرنا شروع کردیئے، یہ کہا گیا کہ یہ وہی جنرل مشرف تھے جو 2004ء کے اعلان اسلام آباد کے بعد بھارت کے مطالبات مانتے نظرآئے۔ نہ صرف جہادی کیمپوں کی موجودگی تسلیم کی بلکہ بند بھی کرائے، ایل اوسی پر بھارت کو خاردار باڑ لگانے کا پورا موقع دیا۔ یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک معاہدہ نواز دور میں 1998ء میں لاہور آ کر، دوسرا معاہدہ فوجی آمر کے دور میں 2004ء میں اسلام آباد آکر کیا، دونوں میں بہت زیادہ فرق تھا، یہ بھی پوچھا گیا کہ یہ کیا عجب بات ہے کہ جو بھی حکومت میں آتا ہے جہادی تنظیموں کے خلاف ہو جاتا ہے جیسے ہی اقتدار سے باہر ہوتا ہے اسے اپنی ضرورت کے تحت ان تنظیموں کی یاد ستانا شروع ہو جاتی ہے۔ نوازشریف کے متعلق مودی کے یار والی مہم کا بھی ذکر ہوا۔ حافظ سعید نے تحمل سے سوالات سنے اور بعض جوابات کو آف دی ریکارڈ رکھنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات سے تاثر تو یہی ملا کہ نہ صرف ان کی تنظیم بلکہ وہ خود بھی ملکی سیاست میں حصہ لینے کیلئے پوری طرح سے تیار ہیں، وہ ملک بھر میں ملی مسلم لیگ کی تنظیم سازی کے ساتھ ساتھ ہر قومی و صوبائی حلقے میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ حافظ سعید نے بتایا کہ وہ خود بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے، بعض شرکاء نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ابھی دور دور تک آپ کی جماعت کے کسی ایک امیدوار کی بھی الیکشن 2018ء میں کامیابی کا امکان نہیں بلکہ لگتا کچھ یوں ہے کہ آپ کسی بڑی جماعت خصوصاً مسلم لیگ(ن) کے ووٹ خراب کرنے کی مہم کا حصہ بنیں گے، تو انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ہر کسی کو سیاست میں حصہ لینے اورسیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ہے اور ہم اپنا آئینی حق ہی تو استعمال کررہے ہیں۔

دوران گفتگو ٹیبل پر انواع و اقسام کے خشک میوہ جات چنے ہوئے تھے۔ گرما گرم چائے بھی دستیاب تھی، شرکاء اگرچہ محدود تعداد میں ہی مدعو تھے مگر ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کا موقع بھی مل جاتا تھا، ایسے ہی ایک موقع پر ایک دوست کی آواز سنائی دی کہ جہاد کو الوداع ہی سمجھا جائے اب نئی ڈیوٹی دے دی گئی ہے جسکے تحت ” لیا جائے گا کام تجھ سے سیاست کا“ سیاست برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے کیلئے فلاحی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ انہی مشاہدات کے ساتھ یہ نشست اختتام کو پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).