اب ’’کرانچی‘‘ کو پیرس بنانے کا وعدہ


پھانسی کی کوٹھری میں تنہا بیٹھ کر اپنے خیالات کو وصیت نامے کی صورت دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے جو نوٹس لکھے تھے بعدازاں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ اس کتاب کا عنوان تھا۔ یہ کتاب کسی ایک موضوع کا یکسوئی کے ساتھ مطالعہ نہیں کرتی۔

کئی حوالوں سے تنہائی کا شکار ہوئے ذہن میں بات سے بات چلاتے خیالات کا اظہار ہے۔ ایسا طرزِبیاں Stream of Consciousnessکہلاتا ہے۔ ایک فرانسیسی منصف نے اسے متعارف کروایا تھا۔ انگریزی زبان کی ورجینیا وولف نے اس طرز کو مزید گہرائی بخشی۔ نقادوں نے ہماری قرۃ العین حیدر کو بھی اسی طرزِ نگارش کی نمائندہ ٹھہرایا تھا اگرچہ وہ اصرار کرتی رہیں کہ ورجینیا وولف کو انہوں نے ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ لکھنے کے کئی برس بعد پڑھا تھا۔

بھٹو صاحب کے نوٹس مگر تخلیقی ادب نہیں ایک سیاست دان کے احساس زیاں کا اظہار ہیں۔ہمارے سب سیاست دانوں کو اس احساس کا شکار ہونا چاہیے۔ جنرل ضیاء الحق کے عہدِ زریں کے بعد سے لیکن وہ ڈھیٹ بن چکے ہیں۔اقتدار میں آنے اور اس پر قابض رہنے کے لئے ریاست کے دائمی اداروں سے جی حضوری کے وعدوں کے ساتھ کوئی ڈیل کرتے ہیں۔ یہ وعدے نبھانہ پائیں تو فارغ ہوجانے کے بعد ایک بار پھر اسی تنخواہ پر کام کرنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔

کتابیں لکھنا تو دور کی بات ہے انہیں کتاب تو کیا اخبار پڑھنے کی بھی عادت نہیں۔دلوں کو گرمانے کے لئے چند اشعار یاد کرلیتے ہیں۔ اس ضمن میں بے چارے اقبالؔ انہیں بہت مرغوب ہیں۔عمران خان ہوں یا شہباز شریف دونوں ہی اقبال کے دریافت کردہ ’’خودی‘‘ کے تصور کو اجاگر کرنے کے دعوے دار ہیں۔

علامہ خادم حسین رضوی صاحب کو لیکن کلامِ اقبال کی مدد سے دلوں کو گرمانا آتا ہے۔ اقبالؔ کے اشعارسے روحوں کو تڑپاکر راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک کو 22دنوں تک میدانِ جنگ میں بدل ڈالتے ہیں۔ ایٹمی قوت کی حامل واحد اسلامی ریاست کو ایک معاہدہ پر دستخط کرکے ان کے سامنے سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔

بھٹو صاحب کی یاد مگر مجھے کتابوں کے حوالے سے نہیں بلکہ دورحاضر کے سیاسی تماشے دیکھنے کی وجہ سے آئی تھی۔اسی پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔

پیر کی شام اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے کئی برسوں سے قائم نیب نے راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے چودھری نثار علی خان کے خلاف پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹکٹ کے ساتھ کھڑے انجینئر قمرالاسلام کو ’’اچانک‘‘ گرفتار کرلیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد اعلان ہوا کہ موصوف صاف پانی کی فراہمی کے لئے حکومتِ پنجاب کے بنائے ایک منصوبے میں کرپشن کے ذمہ دار پائے گئے ہیں۔

احتساب عدالت نے انہیں چودہ روزہ ریمانڈ پرنیب کے حوالے کردیا ہے۔ اب وہ جانیں اور تفتیشی افسران۔ ان کے حلقے میں اگرچہ انتخابی مہم جاری ہے۔ اسی ضمن میں بدھ کی صبح قمرالاسلام کی جانب سے وہ کاغذ ریٹرننگ افسر کے روبرو پیش کرنا ضروری ہے جو تصدیق کرتا ہے کہ موصوف کو ان کی جماعت کے قائد شہباز شریف صاحب نے اپنے دستخط سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔

قمر الاسلام بذاتِ خود یہ دستاویز جمع کروانے کے قابل نہیں رہے۔ ان کی جانب سے نامزدکردہ کسی فرد کو یہ فریضہ سرانجا م دینا تھا۔ غالباََ ایسا کوئی شخص دست یاب نہیں تھا۔ شاید اسی لئے منگل کے دن سوشل میڈیا پر ایک وڈیوViralہوگئی جس میں قمرالاسلام کا دس سالہ بچہ مسلم لیگ نون کے ’’شیروں‘‘ سے یہ فریاد کرتا سنائی دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں راولپنڈی کی ضلع کچہری کے باہر بدھ کی صبح جمع ہوجائیں تاکہ قمرالاسلام سے مطلوب دستاویز شاندار انداز میں جمع کروائی جاسکے۔

اس بچے کی دادفریاد نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ 2008سے مسلسل دس برس تک اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبارسے اس ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گڈگورننس پھیلانے کے دعوے دار شہباز شریف کے پاس کوئی مؤثر سیاسی تنظیم موجود نہیں ہے۔

میگا پراجیکٹس وہ احد چیمہ جیسے افسروں کی معاونت سے متعارف کرواتے رہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی ضرورت کبھی محسوس ہی نہ کی۔اب کڑا وقت آیا ہے تو قمرالاسلام سے انتخابی عمل کے حوالے سے مطلوب دستاویز جمع کروانے کو مسلم لیگ نون کا کوئی عہدیداریا کارکن میسر نہیں۔ اس کے نابالغ بچے کو سوشل میڈیا کے ذریعے مدد کی فریاد کرنا پڑی۔

مجھے خبر نہیں کہ مدد کی یہ پکار شہبازصاحب کے کانوں تک پہنچ پائی یا نہیں۔ کیونکہ پیر اور منگل کے دو دن انہوں نے کراچی میں گزارے ہیں۔ لاہور کو اپنے تئیں پیرس بناچکے ہیں اب ’’کرانچی‘‘ والوں سے وعدہ کررہے ہیں کہ اگر انہیں وزیر اعظم بنادیا گیا تو آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو بھی پیرس بنادیں گے۔

فرانس کا پیرس بنیادی طورپر دریائے سین کے کنارے آباد ہوا تھا۔کراچی مگر سمندر کے کنارے آباد ہے۔ استنبول بھی سمندر کے کنارے بسایا گیا تھا۔ حال ہی میں ترکی کا ’’سلطان اردوان‘‘ ایک بار پھر بھاری اکثریت سے اپنے ملک کا صدر منتخب ہوا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران اس نے وعدہ کیا کہ استنبول کے تاریخی شہر کے درمیان وہ نہر سوئیز جیسی ایک نہر چلائے گا۔

شہباز صاحب اردوان کے طرز سیاست سے بہت متاثر ہیں۔ شاید ان کے ذہن میں بھی یہ خیال ہوگا کہ سمندر کے کھارے پانی کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پینے کے قابل بنانے کے بعد کراچی کے وسط میں ایک نہر کو تعمیر کرنے کے بعد اس میں چھوڑ دیا جائے۔ یوں وہاں پانی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور کراچی پیرس بن جائے گا۔

کراچی کو پیرس بنانے سے پہلے مگر وہ یہ بات تو یقینی بنالیتے کہ ان کے دستخطوں سے قمرالاسلام کے لئے جاری شدہ ٹکٹ راولپنڈی کی ضلع کچہری میں ان کی جماعت کا کونسا عہدے دار جمع کروائے گا۔ شاید ایسا کوئی عہدے دار یا کارکن انہیں میسر ہی نہیں۔اسی لئے جذبات پر قابو نہ پاسکے۔

اپنے ہوٹل میں موجود موسیقاروں کو گاتے سنا تو مائیک لے کر ’’اکیلے نہ جانا‘‘ گنگنانا شروع ہوگئے۔ ان کا گانا بھی ریگولر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ مداحین واہ واہ پکاراُٹھے۔مجھے لیکن اکیلے رہ جانے والے شہباز شریف پر ترس بھی نہیں آیا۔ ’’اسی باعث…‘‘ والا شعر یاد آگیا اور اس کا حتمی پیغام :’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).