ٹیکس کا گورکھ دھندہ


جیسے شاعر اپنے محبوب کی یاد میں کھلی سڑکوں پر گرے خشک پتوں کی مانند بکھر جاتا ہے کچھ ویسے ہی بندہ ناچیزریاست مدینہ کے دعوے داروں کے پیش کیے گئے بجٹ میں بکھر گیا۔ اور بالکل ویسے ہی جیسے شاعر کو بکھرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا مجھے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بہرحال مجھے بجٹ ’بجٹ کم کسی ٹیکس آفس کا اعلامیہ زیادہ لگا پاکستان کا ہر سابقہ بجٹ ”الفاظ کا گورکھ دھندہ“ ہوتا تھا اب کی بار تبدیلی ضرور آئی ہے ”الفاظ“ کی جگہ ”ٹیکس“ نے لے لی ہے یوں حالیہ بجٹ ”ٹیکس کا گورکھ دھندہ“ ہے۔

حالیہ بجٹ کی تقریر کے دوران میں مندرجہ ذیل سوالوں کی تلاش میں ریاست مدینہ ثانی میں نکل پڑا۔ کیا ریاست مدینہ میں ٹیکس تھا؟ کیا اسلام میں ٹیکس ہے؟ کیا برطانیہ کے نظام ٹیکس کی مثالیں دینے والے وہاں کے معیار زندگی سے واقف ہیں؟ کیا وطن عزیز کے شہریوں کو تعلیم اور صحت مفت دی جائے گی؟ کیا بے روزگار الاؤنس ہو گا؟ کیا اولڈایج الاؤنس ہو گا؟ کیا بے گھر افراد کے لئے شیلٹر ہومز ہوں گئے؟ کیا بچوں کے لیے الاؤنس ہو گا؟ کیا حکومت برطانیہ کی طرح کم آمدنی والوں کی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے اضافی الاؤنسز دیے جائیں گئے؟ کیا معیار زندگی بھی حکومت وقت ویسا ہی دے گی جیسا حکومت برطانیہ دے رہی ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب میں بجٹ خاموش ہے پورا بجٹ ٹیکس ’ٹیکس اور ٹیکس کی گردان سے زیادہ کچھ نہیں۔

”بوتل“ پہ ٹیکس۔ لو جی۔ فورا غلط سوچ۔ امیر والی ”بوتل“ نہیں غریب والی ”سوڈا بوتل“ پہ۔ ادویات مہنگی پر نیند آور ادویات پر ٹیکس نہیں کیونکہ غریب تو ”حکومتی گولی“ سے ہی سکون کی نیند سو جاتا۔ یہ حکومت ’غریب کے ساتھ بالکل ویسا ہی کر رہی ہے جیسے آج کل کی محبوبائیں کرتی ہیں۔ یارتم بہت اچھے ہو۔ تم یہ کر لو۔ تم وہ کر لو۔ تم جان ہو۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ سب کچھ تمہارے لئے کر رہی ہوں۔ مگر شادی تمہارے ساتھ نہیں کر سکتی۔ اتنی ڈپلومیسی کہ بے وفا ہو کر بھی بے وفا نہیں لگتی۔ حکومت وقت بھی غریب کے لئے ایسی ہی ایک محبوبہ ہے تبھی تو موجودہ حکومت کے بارے میں غریب پاکستانی اس کشمکش کا شکار ہے کہ آیا بے وفا ہے یا باوفا۔ دوستو یقین کرو حکومت صرف رومانس کے چکر میں ہے۔ خیر بجٹ اور رومانس دونوں پاکستانیوں کو کبھی راس نہیں آئے۔

لفظ ”احساس“ ”کفایت شعاری“ اور ”ہیلتھ ٹیکس“ پر بہت ہنسی آئی۔ بجٹ تقریر یقیناً کسی ادیب نے لکھی ہے۔ بجٹ تو نہیں پر بجٹ کی تقریر خوب تھی۔ اور یہ بات بھی خوشی کا باعث بنی کہ سیمی پروسیسڈ فوڈ خوشحال لوگ کھاتے ہیں۔ تقریر لکھنے والا کوئی ادیب تو تھا ہی ظالم بجٹ بنانے والا کوئی ”نیوٹریشنسٹ“ تھا چینی ’مشروب‘ دودھ ’گوشت اور گھی سب امیروں کے لئے مخصوص کر بیٹھا۔ اگلے بجٹ میں حکومت غریبوں کے لئے بھی ٹیکس کا کوٹہ رکھے۔ مثال کہ طور پر غم‘ دکھ ’بیماری‘ ذلالت اور گھاس پر بھی ٹیکس لگائے۔

کچھ اور سوال دماغ سے ٹکرا رہے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لئے نئی وزارت یا غریب کے خاتمے کے لئے؟ استاد افضل یا پرائیویٹ سیکرٹری (پورے پچیس فیصد اضافہ) ؟ کیا چینی مہنگی ہونے سے آزاد امیدوار متاثرہ شخص کو ریلیف ملا؟

فقط ایک امیر کے گھر کا بجٹ بڑھا کر ہم غریبوں کی غربت کا اڑایا ہے مذاق۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).