امریکا ایران پر حملہ نہیں کرے گا: پانچ وجوہات


گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے عالمی سطح پر پریشانی کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ امریکا مستقبل قریب میں شاید ہی ایران پر حملہ کرے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنے اداریے میں بتایا ہے کہ اگر جنگ نہ بھی ہو تو کسی بھی فریق کی جانب سے بنا سوچے سمجھے اٹھایا گیا کوئی بھی قدم تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتا ہے اور یہ ایسا ہی ہوگا جیسے پٹرول سے بھرے ڈرم میں ماچس کی جلتی تیلی پھینک دی جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کے پانچ واضح اشارے اور وجوہات موجود ہیں کہ امریکا ایران پر حملہ نہیں کرے گا۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی سلامتی بہت عزیز ہے۔ ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں لبنان میں موجود ایران کی حامی تنظیم حزب اللہ اسرائیل پر اتنی زیادہ تعداد میں میزائل فائر کر سکتی ہے جو اس کا میزائل ڈیفنس سسٹم ’’آئرن ڈوم‘‘ بھی روکنے میں ناکام ہو جائے گا۔ حزب اللہ کے پاس تقریباً ایک لاکھ 20؍ ہزار میزائل ہیں جنہیں آئرن ڈوم اتنی تعداد میں فائر کیے جانے پر شاید ہی روک پائے۔ عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر لسانیات پروفیسر نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ایران امریکا جنگ کی صورت میں پہلی موت لبنان کی واقع ہوگی کیونکہ اس صورتحال میں اسرائیل کو پہلا خطرہ لبنان میں موجود حزب اللہ سے ہوگا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں واشنگٹن میں تعینات برطانوی سفیر سر کم ڈیروک کے متعلق لیک ہونے والی سفارتی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس ایران سے نمٹنے کی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں اور ٹرمپ کے اس دعوے میں دم نہیں کہ ان کے پاس ایران کے خلاف اسٹرائیک پلان تیار ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ امریکا کے پاس ایران پر حملے کیلئے ملکی و بین الاقوامی سطح پر حمایت نہیں ہے۔ ٹائم میگزین نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک موقع تھا جب امریکا برطانوی ہم منصبین کو بتائے بغیر ہی ایران کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا کیونکہ امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے برطانیہ کی ہچکچاہٹ کے معاملے میں امریکا جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگیا تھا اور ایک موقع ایسا بھی تھا جب امریکی حکام نے برطانیہ کو ’’بزدل‘‘ قرار دیا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما آئن ڈنکن سمتھ نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم تھریسا مے نے خلیج فارس میں مدد کی امریکی درخواست مسترد کر دی تھی، ممکنہ طور پر اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کو خدشہ تھا کہ یہ مدد خطے میں مسلح تنازع پر منتج ہو سکتی ہے۔ امریکا نے ’’آپریشن سینٹینل‘‘ کے نام پر گلف ریجن میں مشترکہ گشت کیلئے بھی برطانیہ کو پیشکش کی تھی جسے برطانیہ نے مسترد کر دیا تھا۔

چوتھی وجہ یہ ہے کہ ایران خود بھی جنگ نہیں چاہتا اور وہ مکمل طور پر دفاع موڈ میں ہے۔ نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ایران کی فوجی حکمت عملی صرف ڈیٹرنس کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیکھیں تو ایران اتنا باصلاحیت بالکل نہیں کہ وہ امریکا کا مقابلہ کر سکے، جس کا سابقہ اور موجودہ حکومتیں دعویٰ کر رہی ہیں۔ حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ ایران نے جوہری معاہدے پر من و عن عمل کیا۔ حتیٰ کہ اسرائیل نے ایران کے کئی جرنیلوں اور سائنسدانوں کو قتل کیا اور مختلف انداز سے اسرائیل نے ایران کو مشتعل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود ایران نے کوئی سخت اقدام نہیں کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اشتعال انگیزی نہیں چاہتا۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ امریکا کے پاس ایران پر حملے کا قانونی جواز نہیں ہے۔ اگرچہ امریکا قانونی جواز کے بغیر ہی مختلف ملکوں (جیسا کہ شام وغیرہ) پر حملہ کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکا کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کا ادراک ہے۔ حال ہی میں ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ کے معاملے پر امریکی محکمہ خارجہ نے ایک خط لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ محکمہ خارجہ مکمل طور پر اس بات کا احترام کرتا ہے کہ کارروائی کی اجازت میں کانگریس کی اجازت اہم ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت ایران کے مسئلے کا سفارتی حل چاہتی ہے، جنگ نہیں۔

ان پانچ وجوہات پر غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ امریکا صرف ایران پر شدید دبائو کی صورت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ آنے والے دن بتائیں گے کہ یہ دبائو سود مند ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).