یہ لڑکی خودکشی نہیں کر سکتی!


وہ قمبر کی نائلہ تھی، جس کی موت بھی اس ہی طریقے سے ہوئی تھی، یہ ایک ہائی پرفائل اشو بن گیا تھا، سندھ یونیوسٹی کے گرلز ہاسٹل سے ایک طالبہ کی لاش نے جو سوالات اٹھائے ان میں سے ایک جواب بھی ابھی تک نہیں آیا، سندھ یونیورسٹی کی سول سائٹی نے ایک ایک ایسی بات کر دی تھی جو ابھی تک لوگ پوچھ رہے ہیں کہ موت سے بچنے کے لیے بھی کوئی خودکشی کرتا ہے کیا؟ کہا گیا تھا کہ نائلہ کو ان کے بھائیوں سے سیاہ کاری کے الزام میں قتل کرنے کا خدشہ تھا اور اس قتل سے بچنے کے لیے اس نے خودکشی کے راستے کو چن لیا تھا، خیر اس وقت اس خون کو دبانے کے لئے بہت سے الٹے سیدھے بیانات آتے رہے۔

اس وقت کی اخبارات میں سب کچھ لکھا ہوا ہے، اب بھی رکارڈ کسی بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے، پہلے صرف یہ کہا گیا تھا کے نائلہ نے خودکشی کے ہے، جب اس کی جانچ اس وقت کے ڈی آئی جی حیدرآباد خادم رند کو سونپ دی گئی تھی تو 2 روز کے بعد ان کا یہ بیان بھی آیا کہ ہاسٹل کے دروازے سے نشے آور گولیوں کے پتے بھی برآمد ہوئے ہیں، حالانکہ یہ بات ڈی آئی جی خادم رند کی انٹری سے پہلے پوسٹ مارٹم میں سامنے نہیں آئی تھی، 2 روز کے بعد ان کو روم کے دروازے سے یہ نشے آور گولیوں کے پتے ملے تھے جو اس سے پہلے کسی اور کو نظر نہیں آئے تھے۔

وہ رات جشن کی رات تھی، پر وہ کون سا جشن تھا، ہاں وہ فرسٹ جنوری نئے سال کا جشن تھا، چھٹیوں کے باعث ہاسٹل خالی تھے، بس نائلہ ہی صرف اپنے روم میں تھیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کے نائلہ کی آخری بات یونیورسٹی کے کسی پروفیسر سے ہوئی تھی، پر یہ آج تک نہیں بتایا گیا کہ بات کیوں ہوئی تھی۔ بالآخر جانچ میں سب چیزوں کو آخر میں الٹا سیدھا کر کے نتیجہ یہ ہی بتایا گیا کہ خودکشی تھی کسی لڑکے کے دھوکے کی وجہ سے۔

اب اسی ہی نوعیت کا ایک واقعہ لاڑکانہ کی بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا سے پیش آیا ہے، اور لاش ملنے سے ہی بس یہاں کے نجومیوں نے بیان دے دیا کہ یہ خودکشی ہے، طالبہ کے بھائی ڈاکٹر وشال کا میڈیاسے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ واقعہ ہراسمنٹ نہیں بلکہ قتل ہے، نمرتا ساڑھے بارہ بجے کالج میں مٹھائی تقسیم کررہی تھی، ڈیڑھ گھنٹے میں ایسا کیا ہوگیا کہ اس نے خودکشی کرلی؟ ڈاکٹر وشال نے اپنی بہن ڈاکٹر نمرتا کا پوسٹ مارٹم نجی اسپتال سے کرانے کامطالبہ کیا ہے۔

بالکل ڈاکٹر وشال کے یہ جو سوالات ہیں ایسے ہی نائلہ کے موت پر بھی ہوئے تھے جس کا جواب آخر تک کوئی نہیں دے پایا،

یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق نمرتا بی ڈی ایس فائنل ائیرکی طالبہ تھی، اور اْس نے مبینہ طور پر ہاسٹل نمبر 3 میں اپنے کمرے کے پنکھے سے لٹک کرخودکشی کی تھی۔ یونیورسٹی وائس چانسلر انیلا عطاء الرحمٰن نے نمرتا کی گردن پر پائے جانے والے نشان کوخود کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وجوہات جاننے کے لیے پرنسپل چانڈکا میڈیکل کالج کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔

دیکھا جائے تو ایسی کمیٹیاں تو ہر قتل پر بنائی جاتی ہیں پر کیا ہوتا ہے یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اب تو بیانات بھی مختلف آ رہے ہیں۔ کبھی بتایا جا رہا ہے لاش پنکھے میں لٹکی ہوئی تھی کبھی کہتے ہیں کہ بیڈ سے لاش ملی ہوئی ہے۔ جب ایک ہی انتظامیہ کی باتیں اختلافی ہوتی رہیں تو کسی بھی شک و شبے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

سندھ کے تعلیمی اداروں میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ وہ جو نمرتا تھی اس کی جو بھی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں کسی بھی ماہر نفسیات سے اگر تجزیہ کروایا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک ہی نظر میں یہ ہی بتا دے گا کے یہ لڑکی خوکشی نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).