عاشقِ کتاب (افسانہ)


تحریر : ہوشنگ مرادی کرمانی

ترجمہ: عارف بھٹی

ہوشنگ مرادی کرمانی کا تعلق ایران سے ہے۔ وہ بچوں کے مقبول ادیب ہیں۔ ان کی کتابوں پر کئی مشہور فلمیں اور ٹی وی سیریز بنائے جا چکے ہیں۔ یہ کہانی ان کے ایک مقبول کردار ”مجید“ کے بارے میں ہے۔

***     ***

’مش اسد اللہ‘ نے کتاب میں سے ایک صفحہ پھاڑا۔ صفحے کو لپیٹ کر ایک کاغذی لفافے کی شکل دی۔ اس کے اندر تمباکو ڈالا، ترازو میں رکھا، وزن کیا، پھر اس کا منہ بند کر کے میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ میں نے قند، چائے اور ہلدی کے لفافے بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ مش اسداللہ نے گنتارے (قدیمی کیلکولیٹر) سے حساب کرکے رقم وصول کی۔ میں گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچا۔ میری دادی نے مجھ سے وہ چیزیں لیں جو میں مش اسداللہ کی دکان سے لایا تھا۔ یہ دکان ہماری گلی میں ہی تھی۔ لفافوں کو خالی کیا اور وہ صفحے جو کسی کتاب کے تھے، مجھے دیے تاکہ میں انہیں کوڑے دان میں پھینک دوں۔

گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ میری کوئی خاص مصروفیت بھی نہیں تھی۔ چنانچہ خود کو تھوڑا سرگرم اور مشغول کرنے کے لئے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ کتاب کے صفحے جن میں تمباکو، قند، چائے اور ہلدی لپیٹ کر لایا تھا، وہ دونوں اطراف کے ملا کر کل آٹھ صفحے بنتے تھے۔ صفحہ نمبر پندرہ سے بائیس تک۔ پہلے ہلدی کی زردی اور قند کی سفیدی کو احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ صفحوں سے جھاڑ کر صاف کیا اور پھر پڑھنے لگا۔ یہ ایک بہت آسان اور پراثر انداز میں لکھی ہوئی ایک اچھی کہانی تھی۔

آٹھوں صفحے پڑھ لیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے درسی کتابوں کے علاوہ اس وقت تک کچھ نہیں پڑھا تھا۔ ان آٹھ صفحوں کے پڑھنے سے ہی دراصل مجھے پہلی بار کتاب پڑھنے کا مزہ معلوم ہوا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ جہاں پر جا کر یہ کہانی ایک اہم موڑ مڑنے لگتی ہے یعنی اس بائیسویں صفحے پر جو میرے پاس موجود تھا، اگلا صفحہ نہ ہونے کی وجہ سے قطع ہو جاتی ہے۔ یعنی ٹھیک اسی جگہ جہاں پر کہانی المناک اور ہیجان انگیز تھی۔

اس کہانی میں ایک بچہ، جس کا باپ چھڑی کے ساتھ اس کی پٹائی کرتا ہے۔ وہ بچہ گھر سے بھاگ جانے کا ارادہ کرتا ہے۔ لیکن ساتھ میں وہ ڈر بھی رہا ہوتا ہے۔ آخر وہ اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اور نہیں جانتا کہ کدھر کو جائے۔ خوب۔ یہ موضوع ہیجان انگیز تھا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ بچہ پھر کہاں گیا اور اس کے ساتھ کیا افتاد پیش آئی۔

اچانک خیال آیا کہ مش اسد اللہ کے پاس جاؤں اور ہر حال میں باقی کتاب حاصل کر کے پڑھوں تاکہ معلوم ہو کہ بچے کے ساتھ پھر کیا ہوا۔ چنانچہ اٹھا اور تیر کی طرح سیدھا دوڑتا ہوا دکان پر پہنچا۔ ہانپتے ہوئے کہا، ”سلام! مش اسداللہ باقی کتاب کہاں ہے۔ وہ مجھے دو گے، میں پڑھ کر آپ کی خدمت میں واپس کر دوں گا۔ تب کتاب کے ساتھ جو کرنا ہوا کر لینا۔ “

میں شائستہ انداز میں بولا تھا تاکہ میری بات اثر کرے۔ مش اسد اللہ کسی اور ہی خیال میں گم تھا۔ اس کی بھویں آپس میں ملیں اور حیرانی سے بولا، ”کون سی کتاب بیٹا؟ میرے پاس تو کوئی کتاب نہیں ہے۔ “

میں نے گردن ٹیڑھی کی۔ مظلوم انسانوں کی سی صورت اور حق بجانب چہرہ بنا کر کہا، ”تمہیں تمہارے بچوں کی جان کی قسم، وہی کتاب جس کے ابھی صفحے پھاڑ کر اور ان میں تمباکو، چائے اور ہلدی لپیٹ کر مجھے دیے تھے، اس کا کیا کیا ہے؟ باقی کتاب کہاں کی ہے؟

بوڑھے نے اپنے ہونٹوں کے کونے نیچے کی طرف سکیڑے اور یوں ظاہر کیا جیسے واقعی اسے بہت تعجب ہوا ہو۔ بہرحال، ہونٹ اپنی جگہ واپس آئے زبان کو ہونٹوں پر پھیر کر کہا، ”بقیہ کتاب کس لیے چاہیے؟ “

اس کی مزید توجہ حاصل کرنے کے لیے میں نے ترازو کے ایک پلڑے کو اٹھایا۔ قند کا چورا اس کے پیندے میں لگا ہوا تھا۔ اسے دکان سے باہر دیوار کے ساتھ ٹکرا کر جھاڑا۔ پھر اپنی آستین کے ساتھ خوب صاف کرکے واپس اپنی جگہ پر رکھ کر بولا، ”ایک بار جناب کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ میں بقیہ کتاب پڑھنا چاہتا ہوں اور یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آخر اس معصوم بچے کے ساتھ، جو کہ گھر سے بھاگ گیا ہے، کیا ہوا ہے۔ پھر کون سی مصیبت اس کے سر پر نازل ہوئی ہے۔ “

مش اسد اللہ نے اپنی داڑھی میں کھجلی کی اور پخ پخ کی آواز کے ساتھ ہنسنا شروع کر دیا۔ اس کے دانت نہیں تھے اس لیے ’پخ پخ‘ کر کے ہنستا تھا۔ اس کا ہنسنے کا انداز بہت بانمک (پرکشش) تھا۔

بالآخر اسی بانمک ہنسی کے ساتھ بولا، ”جاؤ، جا کر اپنا کام کرو۔ یہ کتاب تمہارے مطلب کی نہیں ہے۔ “

میں نے کہا، ”دیکھو، میں یہ کتاب تم سے خریدنا چاہتا ہوں۔ جو بھی ردی اور کاغذ میرے پاس ہیں، تمہیں دے دوں گا اور وہ بھی مفت۔ میں ’دس شاہی‘ بھی اس کے بدلے میں نہیں لوں گا۔ ٹھیک ہے؟ “

بولا، ”یہ کتاب بیچنے کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی میں کوئی کتاب فروش ہوں۔ یہ کتاب تو اس لیے ہے کہ بندہ اس کے صفحے ایک ایک کر کے پھاڑے اور ان میں چنے، لوبیا، پنیر، ہلدی وغیرہ لپیٹ کر گاہکوں کو دے۔ اب تمھیں بات سمجھ آگئی ہوگی۔ چلو جاؤ! اب جا کراپنا کام کرو۔ “

وہ تھوڑا اڑیل مزاج والا انسان تھا۔ اتنی آسانی سے نرم پڑنے والا نہیں تھا اور میں بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔ اسے مزید رام کرنے کے لیے ترازو کا دوسرا پلڑا اٹھایا۔ اس کی تہہ میں تھوڑی سفید رنگ کی گرد موجود تھی۔ پلڑے کو مش اسد اللہ کے چہرے کے برابر کر کے، تاکہ وہ میری اس خدمت اور مہربانی کو اچھی طرح دیکھے۔ درست؟ تو میں نے پلڑے کو اٹھا کر اس کے چہرے کے روبرو کر کے ایک پھونک ماری۔ پھونک نے پلڑے میں موجود سفید گرد کو اٹھایا اور لے جا کر ڈال دیا بیچارے بوڑھے کی آنکھوں میں۔

مش اسد اللہ جو کہ خوش تھا اور پخ پخ کرکے ہنس رہا تھا، دیر نہ کرتے ہوئے جلدی سے بولا، ”تم کر کیا رہے ہو؟ “ اور پھونک سے بچنے کی کوشش کرنے لگا۔ البتہ جب پھونک سے گرد آنکھوں میں پڑی تو پھر بولا، ”تم کر کیا رہے ہو؟ “ اور ساتھ ہی اپنی آنکھیں ملنی شروع کر دیں۔ اس نے اپنا برا حال کر لیا تھا۔ اس دیکھ کر، قریب تھا کہ میرا پِتہ بھی پانی ہو جاتا۔ بوڑھا اپنی آنکھوں کو مل رہا تھا، دانت پیستے ہوئے بولا، ”تم میں عقل نہیں ہے۔ اس پلڑے میں نمک تھا۔ میری آنکھوں میں جلن ہو رہی ہے۔ بے انصاف! تمہیں کس نے کہا ہے کہ یہاں آکر میری خدمت کرو۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3