کیا منصف ( جج ) کو ایمبیشس اور ایڈوینچرسٹ ہونا چاہیے؟


محترم چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس سنی۔ جس میں محترم جاوید اقبال حکومت وقت کو ریاست مدینہ کی طرف ٹھوس پیش قدمی کے لیے گراں قدر مشوروں سے نواز رہے تھے۔ اور نوکر شاہی کی اپنی پسندیدہ شخصیتوں کی خصوصیات بیان کر رہے تھے، کہ ایک نیک افسر کیسا ہوتا یے؟ محترم چیئرمین صاحب نے مستقبل کے حوالے سے بھی پیش گوئی کی اور کہا: ”اب ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے۔ مالم جبہ کیس کا ریفرنس بھی تیار ہے۔ بڑے بڑے چھکے مارنے والے سابق حکمراں پس زنداں ہیں۔ جلد ہی آپ احتساب کے حوالے سے بڑی تبدیلی دیکھیں گے۔ “

محترم چیئرمین نیب کی تقریر سن کر ایک فلم کا ڈائیلاگ ذہن میں آیا۔ جس میں ایک کہنہ مشق قانون دان اور وکیل قانون کے طلباء کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ ”منصف کو ایمبیشس اور ایڈوینچرسٹ نہیں ہونا چاہیے۔ منصف کے پیش نظر صرف قانون ہونا چاہیے۔ “ حسن اتفاق کہ بانی پاکستان بھی قانون دان تھے۔ اور ان کا عزم بھی تھا کہ پاکستان کو عظیم اسلامی تجربہ گاہ بنائیں۔ جنرل ضیاءالحق نے قائد اعظم کے اس فرمان پر وطن عزیز کو اسلامی تجربہ گاہ بنا دیا۔ تجربے ابھی تک جاری ہیں۔ کب تک جاری رہیں گے؟ اس پر روشنی اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان اور تجربوں میں مشغول حلقے ہی ڈال سکتے ہیں۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی قانون دان تھے۔ آپ نے فرمایا تھا: ”گھاس کھا لیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔ “ الحمد للہ ثمہ الحمد للہ، ایٹم بم بنے تو ایک عرصہ ہو گیا۔ اور موجودہ تبدیلی حکومت گھاس کھانے والے مقولے پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ منصفوں اور قانون دانوں کی موشگافیاں ہی ہیں۔ جس کی وجہ سے سول و فوجی آمر وطن عزیز پر بآسانی برسوں حکومت کرتے رہے۔

جب جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے منصب سے برخاست کیا، تو وطن عزیز کے سرکردہ وکلاء اور قانون دان سراپا احتجاج بن گئے۔ اور نعرہ لگا کہ اب ریاست ہو گی: ”ماں کے جیسی“ نعرہ مسحور کن تھا۔ نعرہ سن کر ذرائع ابلاغ اور عوام ماضی کے منصفوں کے کرتوتوں کو نظر انداز کر کے ریاست کو ماں بنانے میں جت گئے۔ ریاست ماں تو نہ بن سکی، لیکن وکلاء عوام اور قانون کے باپ دادا بن گئے۔ جس کے مظاہرے دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔

لانگ مارچ اور مقتدر حلقوں کی رضا کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال تو ہو گئے۔ لیکن بحالی کے بعد موصوف سوموٹو نوٹسز لے کر حکومت چلانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ جناب نے ہی چند سیکنڈ کی سزا دے کر وزیر اعظم کو نا اہل کرنے کی روایت ڈالی۔ سابق چیف جسٹس کے بے جا اور بے تحاشا سوموٹو نوٹسز کی وجہ سے نظام حکومت مفلوج ہو کر رہ گیا۔ 2013 میں عام انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ ( ن ) کی حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ کی حکومت میں احتساب کا ادارہ حرکت میں آیا۔ زیادہ تر ریفرنس سابق حکمران جماعت کے رہنماؤں کے خلاف قائم ہوئے اور گرفتاریاں ہوئیں۔

جب قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے مشورے سے محترم جاوید اقبال چیئرمین نیب بنے اور پھر جناب ثاقب نثار چیف جسٹس بنے۔ تو جہاں مبینہ احتساب اور انصاف کا عمل تیز ہوا۔ وہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو ڈیم بنانے اور اس کی چوکی داری کی سوجھی۔ سابق چیف جسٹس ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم کا حصہ بنے۔ ڈیم، ڈیم کی چوکی داری اور چندے کا کیا بنا؟ قوم اس حوالے سے اب تک متجسس ہے۔

وطن عزیز اسلام کی تجربہ گاہ بھی بن چکا یے۔ ایٹم بم بھی بن چکا ہے۔ جس کی قیمت قوم اب تک چکا رہی ہے۔ ڈیم بنا نہیں، لیکن قوم چندہ دے چکی ہے۔ لیکن ریاست کا جو جمہوری و فلاحی مملکت کا تصور بانی پاکستان نے دیا تھا۔ وطن عزیز بانی پاکستان کے اس تصور سے کوسوں دور ہے۔ چونکہ وطن عزیز میں آئین و قانون کی پاس داری کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ سول و فوجی آمر ذاتی و بین الاقوامی ایجنڈوں کی تکمیل میں مصروف رہے۔ اور عدالت عظمی کے منصف اعلی ہمیشہ آمروں کے دباؤ پر فیصلے دیتے رہے۔

اٹھارویں ترمیم اور تبدیلی حکومت کے بعد فرق صرف اتنا پڑا ہے، کہ منصف اعلی اور احتسابی ادارے کے سربراہ ایمبیشس اور ایڈوینچرسٹ بن گئے ہیں۔ اور قانون سے بالا تر ہو کر اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق امور مملکت، نظام عدل و انصاف اور احتساب کا عمل انجام دینا چاہتے ہیں۔ جو ہرگز بھی ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔ چونکہ منصف ( جج ) کو ایمبیشس اور ایڈوینچرسٹ نہیں ہونا چاہیے۔ منصف کو صرف قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہیئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).