میانمار:روہنگیا ’نسل کشی‘، عالمی عدالت انصاف کیا کر سکتی ہے؟


میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو دی ہیگ میں اقوامِ متحدہ کی عالمی عدالت انصاف، آئی سی جے میں پیش ہونا ہے جہاں وہ نسل کشی کے الزامات کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کریں گی۔

امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی ان الزامات کو سنیں گی جن میں یہ کہا گیا ہے کہ میانمار نے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کیے۔

خیال رہے کہ بودھ مت کے پیروں کاروں کی اکثریتی آبادی کے ملک میانمار میں بسنے والے ہزاروں روہنگیا سنہ 2017 میں فوج کے کریک ڈاؤن میں ہلاک ہوئے اور سات لاکھ سے زیادہ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش چلے گئے۔

میانمار نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ انتہاپسندی کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔

مزید پڑھیے

سوچی روہنگیا بحران کو کیسے دیکھتی ہیں؟

روہنگیا بحران: سوچی کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

میانمار میں فوج نے 25 روہنجیا مسلمانوں کو ہلاک کیا

یہ مقدمہ مغربی افریقہ کے مسل اکثریت والے ملک گیمبیا نے درجنوں مسلم ممالک کی طرف سے دائر کیا ہے۔

کیس کی ابتدائی تین روزہ کارروائی کے دوران بین الاقوامی عدالت انصاف سے کہا جائے گا کہ وہ عارضی طور پر روہنگیا کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے۔ نسل کشی کے الزامات پر فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

الزامات کیا ہیں؟

سنہ 2017 کے آغاز میں میانمار میں دس لاکھ روہنگیا آباد تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر میانمار جسکا پرانا نام برما ہے کی ریاست رخائن میں رہتے تھے۔

لیکن میانمار میں زیادہ تر آبادی بودھ مذہب کی پیروکار ہے۔ وہ روہنگیا کو غیر قانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں اور انھیں شہریت بھی نہیں دی جاتی۔

روہنگیا کی جانب سے طویل عرصے سے یہ شکایت کی جاتی رہی کہ ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہے اور پھر سنہ 2017 میں ملکی فوج کی طرف سے رخائن میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف کی دستاویزات کے مطابق فوج پر الزام ہے کہ اس نے روہنگیا کے خلاف اکتوبر 2016 سے ’بڑے پیمانے پر منظم طریقے سے کلیئرنس آپریشن‘ شروع کیا۔

عدالت میں ان الزامات پر سماعت ہو گی کہ اس کلئیرنس ’کا مقصد بطور گروہ روہنگیا کو مکمل طور پر یا حصوں میں قتل، ریپ کرنا تھا اور کئی ایسی عمارتوں کو بھی آگ لگائی گئی جن میں لوگ موجود تھے۔

اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بظاہر بہت سے الزامات کی تصدیق کی ہے۔ اگست میں آنے والی ایک رپورٹ میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ میانمار کے سپاہیوں کو ’روٹین میں اور منظم طور پر عورتوں، لڑکیوں، لڑکوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف ریپ، گینگ ریپ ، تشدد اور زبردستی جنسی افعال کرنے کو کہا گیا۔

مئی میں میانمار کے سات سپاہیوں کو قید سے جلد رہائی مل گئی جن پر 10 رونگیا مردوں اور لڑکوں کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

میانمار کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشنز میں روہنگیا شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ماضی میں فوج اپنے آپ کو الزامات سے کلیئر کر چکی ہے۔

الزامات کون لگا رہا ہے؟

جلتا ہوا مکان

بین الاقوامی عدالت انصاف اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت ہے اور اس میں کیس کسی ملک کی طرف سے دائر کیا جا سکتا ہے۔

اس مقدمے کے لیے گیمبیا کو اسلامی تعاون کی تنظیم، او آئی سی کے 57 ممالک اور بین الاقوامی وکلا کی ایک ٹیم کی حمایت حاصل ہے۔

اکتوبر میں گیمبیا کے اٹارنی جنرل اور وزیر برائے انصاف ابوبکر ایم تمبادو نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھوں نے یہ قدم بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں کے حالات اور ان کی ہلاکتوں، ریپ اور ان پر تشدد کے بارے میں سننے کے بعد کیا۔

آنگ سان سوچی کا کیا کردار ہے؟

یہ کیس آنگ سان سوچی کے خلاف نہیں بلکہ میانمار کے خلاف ہے۔

عالمی عدالت انصاف کسی فرد واحد کو اس طرح سزا نہیں دے سکتی جیسے مثال کے طور پر جرائم سے متعلق عالمی عدالت دے سکتی ہے۔ (آئی سی سی الگ سے روہنگیا کیس کی تفتیش کر رہی ہے)۔ ‘

لیکن یہ مقدمہ کچھ حد تک سنہ 1991 میں امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کے بارے میں بھی ہے۔

سوچی اپریل 2016 یعنی روہنگیا کی نسل کشی کے الزامات سے پہلے سے میانمار کی سربراہ ہیں۔ ان کا ملکی فوج پر تو کوئی کنٹرول نہیں لیکن اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ان پر فوجی کلئیرنس آپریشن میں ساز باز کا الزام عائد کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے میانمار میں انسانی حقوق کے لیے موجود سپیشل ریپوٹار یانگ لی نے ستمبر میں کہا تھا ’اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ براہ کرم اپنی اخلاقی اتھارٹی کو استعمال کریں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘

نومبر میں آنگ سان سوچی نے دی ہیگ میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملکی دفاع کے معاملات کی ذاتی طور پر بحیثیت وزیر دفاع سربراہی کریں گی۔ وہ 11 دسمبر کو عدالت میں خطاب کریں گی۔

اس کیس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟

میانمار

ابھی گیمبیا صرف عدالت سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ روہنگیا کے لیے میانمار اور جہاں بھی وہ ہوں کو مزید خطرات اور تشدد سے بچانے کے لیے ’عارضی اقدامات‘ کا حکم دیں جن پر عمل درآمد لازمی ہو گا۔

یہ فیصلہ دینے کے لیے کہ میانمار نے نسل کشی کی ہے عدالت کو تعین کرنا ہو گا کہ ریاست نے یہ اقدام روہنگیا اقلیت کو مکمل طور پر یا اس کے ایک حصے کو تباہ کرنے کے ارادے سے کیا۔

لیکن حتمی فیصلہ شاید سالوں کی دوری پر ہے۔ اور تب بھی عالمی عدالت کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر طاقت سے عمل کروائے لیکن الزام کے ثابت ہونے کی صورت میں میانمار کی ساکھ اور معیشت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔

روہنگیا کے لیے ابھی کیا صورتحال ہے؟

جب سے ملٹری آپریشن شروع ہوا ہے لاکھوں روہنگیا میانمار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

30 ستمبر تک بنگلہ دیش کے کیمپوں میں رہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد نو لاکھ پندرہ ہزار تھی۔ ان میں سے 80 فیصد نے اگست 2017 سے دسمبر 2017 کے درمیان نقل مکانی کی۔ اور رواں برس مارچ میں بنگلہ دیش نے کہا کہ وہ مزید روہنگیا کو قبول نہیں کرے گا۔

اگست میں بنگلہ دیش نے اپنی مرضی سے واپس لوٹنے والے روہنگیا کے لیے سکیم شروع کی لیکن کسی ایک روہنگیا نے بھی واپسی کا ارادہ نہیں کیا۔

بنگلہ دیش کا منصوبہ ہے کہ وہ خلیج بنگال میں موجود ایک چھوٹے سے جزیرے بھاسن چار پر ایک لاکھ روہنگیا کو آباد کرے گا۔ لیکن 39 امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروہوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔

ستمبر میں بی بی سی کے جوناتھن ہیڈ نے رپورٹ کیا تھا کہ روہنگیا کے میانمار میں موجود علاقوں میں پولیس کی بیرکیں، سرکاری عمارات اور پناہ گزینوں کے بحالی مراکز بنائے جا چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32732 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp