حکومت کرنے کا طریقہ دو خلفا کی زبانی


تحریک انصاف کی حکومت ڈیڑھ سال میں بھی اپنی سَمت واضح نہیں کر سکی ہے۔ کہنے کو تو وزیراعظم عمران خان ریاستِ مدینہ کی گردان سے اپنے موقف کا بار بار اعادہ کرتے ہیں مگر شاید وہ سیرت کی کتب میں فتح مکہ کا باب پڑھنا بھول گئے ہیں۔ حاکم کبھی بغض و عناد کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا اور جہاں انصاف نہ ہو وہاں صرف ویرانی ہوتی ہے۔

اگر عمران خان اروند کیجریوال کی حلف برداری کے بعد کی تقریر سن لیں یا سلطان قابوس مرحوم کے حالاتِ زندگی اور ان کی کامیابی کی وجہ جان لیں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ اقتدار کے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی عام معافی کا اعلان کرنا پڑتا ہے وگرنہ گڑے مردے اکھاڑنے سے محض اپنا اور قوم کا وقت ہی ضائع ہوتا ہے اور جو موقع میسر آتا ہے وہ بھی ریت کی مانند پھسل جاتا ہے۔ اب بھی وقت ہے خان صاحب اگر چاہیں تو اپنی سمت کا از سر نو تعین کر سکتے ہیں، وگرنہ اسی روش پر چل کر آخر میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ”ما خانہ بدوشاں غمِ سیلاب نہ داریم“

کامیاب حکومت کے حوالے سے ایک اموی اور ایک عباسی خلیفہ کا ایک ایک واقعہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ تو ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟

روایت ہے کہ سیدنا عمرؒ بن عبدالعزیز کو کسی شہر کے حاکم نے شکایت نامہ ارسال کیا اور شہر کی ویرانی کا گلہ کرتے ہوئے مال و متاع طلب کیا تاکہ شہر کو آباد کیا جا سکے۔ امیر المومنین نے جواباً لکھ بھیجا ”اپنے شہر کو عدل و انصاف کے ذریعے محفوظ کرو، اور شہر کے راستوں سے ظلم و زیادتی کو دور کرو کیونکہ ظلم و زیادتی ہی شہروں کی ویرانی کا سبب ہے“۔

کہا جاتا ہے کہ ملک لشکر (فوج) کے بغیر نہیں، لشکر مال کے بغیر نہیں، مال شہروں کے بغیر نہیں، شہر عوام کے بغیر نہیں اور عوام انصاف کے بغیر نہیں۔

(سنہرے فیصلے از عبدالمالک مجاہد، ص 140 )

تاریخ طبری میں عباسی خلیفہ منصور کے حوالے سے درج ہے کہ ایک روز منصور نے حاضرین سے کہا کہ اگر میرے پاس چار لوگ ہوں تو مجھے کسی پانچویں کی حاجت نہیں۔ پوچھا گیا کہ یہ چار لوگ کون ہیں، کہنے لگا کہ یہ چار لوگ ہی ہیں جو کسی ریاست کے ارکان ہوا کرتے ہیں، ان کو نظر انداز کرکے کوئی بھی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔ ان کی اہمیت چارپائی کے چار پایوں کی سی ہے کہ اگر ایک پایہ بھی گر جائے تو چارپائی نہیں ٹھہرتی۔

”ان چار افراد میں پہلا شخص وہ قاضی ہے جو درست فیصلہ کرتا ہے اور کسی ملامت کرنے والے کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ وہ حق کی تائید میں اپنا فیصلہ ہر حال میں برقرار رکھتا ہے۔

دوسرا شخص وہ پولیس آفیسر ہے جو کمزور کو طاقتور سے انصاف دلاتا ہے اور اپنے فرض کی ادائی پوری ایمانداری سے کرتا ہے۔

تیسرا شخص وہ ٹیکس وصول کرنے والا ہے جو رعایا (عوام) پر ظلم کیے بغیر اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ ”

روایت ہے کہ اتنا کہنے کے بعد منصور چپ ہو گیا اور اپنے شہادت کی انگلی دانتوں تلے دبانے لگا۔ تین بار اس نے اپنی انگلی دبائی اور ہر بار آہ آہ کی آواز بلند کی۔ حاضرین نے پوچھا کہ چوتھا شخص کون ہے؟

منصور بولا، چوتھا شخص خفیہ محکمے کا وہ افسر ہے جو مذکورہ تینوں افراد کی رپورٹوں کی تصدیق پر آخری مہر ثبت کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments