تقدیس کی اوٹ میں جنسی بربریت اور ابتسام الہٰی ظہیر کی مداخلت


1۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک 11 سالہ بچہ جو مسجد میں نماز ادا کرنے گیا تھا جنسی زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

2۔ مظفرگڑھ میں ایک 13 سالہ بچہ جو اعتکاف کی حالت میں تھا اس کے ساتھ کسی بدبخت نے جنسی زیادتی کی اور فرار ہو گیا۔

3۔ فیصل آباد میں ابوبکر معاویہ نامی مفتی کہلانے والے شخص نے ایک 12 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی، بچے کا والد جیسے ہی جائے وقوعہ پر پہنچا تو مولانا برہنہ حالت میں لیٹے تھے، بچے کے والد کو دیکھتے ہی فوراً وہاں سے گن پوائنٹ پر دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہو گئے۔

یہ تین واقعات بالکل تازہ ہیں۔ علماء سے سنتے آئے ہیں کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں شیطان مردود کو جو نیک انسانوں اور نیکیوں کا ازلی اور موذی دشمن ہے قید کر دیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ پھر یہ کون لوگ ہیں جو اس مقدس ماہ مبارک میں بھی جنسی درندگی سے باز نہیں آتے؟ یہ کس طرح کے مسلمان ہیں جو اس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ مغفرت اور جہنم سے خلاصی کے اس مقدس عشرے میں بھی جنسی حیوانیت سے باز نہیں آئے؟ ان تینوں واقعات پر خود ساختہ علمائے کرام کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔

ہاں صرف ایک منفرد واقعہ ایسا ضرور ہے جس میں علامہ ابتسام الہٰی ظہیر مداخلت فرماتے ہیں اور خود جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ فیصل آباد کے ایک علاقہ تاندلیانوالہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے، جس میں ایک پولیس افسر مفتی ابوبکر معاویہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ تمہیں اس طرح کی شرمناک حرکت کرتے ہوئے شرم نہیں آئی اور مولانا سر جھکائے کھڑے ہیں۔

بس پھر کیا تھا ابتسام الہٰی کی انٹری ہوتی ہے اور بجائے متاثرہ فریق یعنی بچے اور اس کے والد کے ساتھ کھڑے ہونے کے وہ اپنے ہم پیشہ بھائی ابوبکر معاویہ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور بچے کے والد کو اس قدر مجبور کر ڈالتے ہیں کہ وہ ایک کلیئر کٹ ایف آئی آر جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے ” کہ ابوبکر معاویہ برہنہ حالت میں بچے کے ساتھ ایک الگ مکان میں زیادتی کرنے کی کوشش کر رہا تھا“ کو واپس لینے پر مجبور ہو گیا اور میڈیا کے سامنے کہا کہ اس نے اللہ کی رضا کے لیے ابوبکر معاویہ کو معاف کر دیا ہے۔

ظاہر ہے بچے کا والد بیچارہ اتنا دباؤ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ جس کے گھر میں اتنے بہت سے معزز و معطر علما ایک ساتھ بیٹھے ہوں اور دوسری طرف اسے اپنے بچے کی بھی فکر کھائے جا رہی ہو کہ اب میرا بیٹا اس سماج میں سر اٹھا کے کیسے جیے گا؟ ایک طرف اکیلا و بے بس باپ اور اس کا بیٹا کھڑا ہو اور دوسری طرف کثیر تعداد میں اہل جبہ و دستار کھڑے ہوں وہاں بھلا مجبور باپ اور کر بھی کیا سکتا ہے سوائے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کر دینے کے؟

اس جملے میں چھپی بے بسی کو صرف اہل اولاد ہی محسوس کر سکتے ہیں کہ جب ایک مجبور باپ یہ جملہ بولتا ہے ”کہ اس نے اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دیا ہے“ تو اس کی
کیا کیفیت ہوتی ہے؟

اے اہل اولاد تھوڑی دیر کے لیے اپنے دل پہ ہاتھ رکھیں اور ان جملوں میں پنہاں درد کی ٹیسوں کو محسوس کرنے کی کوشش تو کریں کہ کس قدر مجبور باپ ہے جو سچ پر ہوتے ہوئے بھی اپنے معصوم سے لال کا معاملہ آگے بڑھانے کی سکت نہیں رکھتا؟

کاش مولانا ابتسام الہٰی متاثرہ بچے کو اپنا بیٹا تصور کرتے ہوئے دکھ کی اس گھڑی میں بچے اور اس کے والد کے ساتھ کھڑے ہوتے، کورٹ کچہری کے تمام اخراجات خود برداشت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے متاثرہ بچے کا حوصلہ بڑھاتے اور اس کا بازو بننے کی کوشش کرتے۔

لیکن نہیں، شاید یہ احساس ہی مولانا کے تنک سے دائرہ ادراک سے ماورا ہے کہ اس سارے معاملے میں وہ بچہ ”وکٹم“ ہے جس کے ساتھ یہ ”سٹگما“ جڑ چکا ہے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا وہ بچہ اس سماج میں کبھی نارمل طریقے سے جی پائے گا؟ جو گہرا زخم اس کے جسم سے ہوتے ہوئے اس کی روح پر لگا ہے کیا وہ کبھی اس صدمے کی کیفیت یا ذہنی اذیت سے نکل پائے گا؟

کیا یہ معصوم کبھی اپنی عمر کے بچوں یا ہم جھولیوں کی آنکھوں میں جھانک پائے گا؟ یہاں تو یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ جناب! ابوبکر معاویہ زیادتی کی کوشش ضرور کر رہا تھا لیکن اس نے جنسی زیادتی کی تو نہیں نا!

تو پھر اس معاملے کو اتنا اچھالنے کی ضرورت کیا ہے۔ چلیں کچھ دیر کے لیے جنسی ہراسانی یا زور زبردستی والے معاملے کو ایک طرف کر دیتے ہیں حقائق پر بات کر لیتے ہیں کہ آج کے دور میں کون سا والد یا والدہ چاہے گی کہ اس کا بیٹا تنہا مکان میں ایک برہنہ مولوی کی ٹانگیں دبائے؟

کیا کوئی والد اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ اس کا بیٹا تنہا کسی مولوی کے ساتھ کسی مکان میں ہو؟ مان لیتے ہیں کہ ابوبکر معاویہ بے گناہ ہے لیکن اس حقیقت کا کیا جواز پیش کریں گے کہ وہ ایک 12 سالہ بچے کے ساتھ ایک تنہا مکان میں موجود تھے؟ اور برہنہ حالت میں ٹانگیں دبوا رہے تھے؟ معاملے کو رفع دفع یا صلح صفائی کا موڑ دینے کے بجائے باقاعدہ تفتیش ہونی چاہیے تھی اور انصاف کے حصول کے لیے مولانا ابتسام الہٰی ظہیر کو مفتی ابوبکر معاویہ سے مکمل تفتیش اور ڈی این اے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا تاکہ جس پر جرم ثابت ہو اسے قرار واقعی سزا دی جاتی۔

لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہوا ہے، ابوبکر معاویہ نے رہا ہوتے ہی ارشاد فرمایا ” کہ حق اور سچ کی فتح ہوئی ہے اور میں ناموس رسالت کا تحفظ کرتا رہوں گا“۔ (مطلب واضح اسلامک ٹچ) کہاں کی بات کہاں جوڑ ڈالی؟ معاملہ ماتھے پر لگے ایک الزام کا تھا اور جوڑ ڈالا ناموس رسالت کے تحفظ کے ساتھ؟ کس قدر ڈھٹائی کے ساتھ یہ تک نہیں سوچا کہ کہیں ایسا کہنے سے وہ خود گستاخی یا بے حرمتی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔

لیکن شاید یہ ساری باریکیاں تو سیکولر یا منفرد سوچ رکھنے والوں پر لاگو ہوتی ہیں، یہ سارے جبری پیمانے تو یہاں دنیا داروں پر جھٹ سے لاگو ہو جاتے ہیں۔ خود ساختہ وارثان مذہب کو بھلا کون کٹہرے میں کھڑا کرنے کے جرات کر سکتا ہے؟

ہمارا تو مولانا ابتسام الٰہی سے ایک عاجزانہ سا سوال ہے کہ حضور اچھرہ میں ایک واقعہ ہوتا ہے، جس میں ایک خاتون جو عربی کیلیگرافی والے لباس میں ملبوس تھی اسے اہل ایمان دھر لیتے ہیں اور چڑھائی کر دیتے ہیں آپ بقلم خود وہاں نہیں پہنچتے کیوں؟

مشعال خان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے جنہیں عدالتوں نے بھی معصوم ڈیکلیئر کر دیا تھا آپ وہاں نہیں پہنچے کیوں؟

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک بچی کو اس کے والد اور بھائی نے زیادتی کر کے مار ڈالا آپ وہاں نہیں پہنچے کیوں؟

مانسہرہ میں قاری شمس الرحمن نے ایک 10 سالہ بچے سے زیادتی کی جس کا ڈی این اے تک میچ کر گیا تھا اور جسے حال ہی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے آپ وہاں بھی نہیں پہنچے کیوں؟

اس کے علاوہ درجنوں واقعات ہوئے اور مدارس میں چھوٹے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آپ کہیں بھی نہیں پہنچتے اور نا ہی کوئی نوٹس لیتے ہیں کیوں؟

لیکن فیصل آباد پہنچ گئے آخر کیوں؟

تمام مکاتب فکر کے معزز علماء کرام سے بھی سوال ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہوتا ہے آپ احتجاج کرتے ہوئے باہر نکل آتے ہیں لیکن ہمارے معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر اس قدر خاموشی کیوں؟ ہمارے بچے تو قاری صاحب کو ایک مقدس و معزز ہستی سمجھتے ہوئے ان کے سامنے انتہائی ادب کے ساتھ دو زانو ہو کے بیٹھتے ہیں اور اگر کوئی درندہ ان سے زیادتی کرتا ہے تو علمائے دین خاموش کیوں رہتے ہیں؟ کیا دین و مذہب کی سربلندی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہے یا ظالم کے؟

سنا ہے کہ ریاست جاگ گئی ہے وزیر اعلیٰ صاحبہ نے بھی فیصل آباد والے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور ریاست نے بطور فریق متاثرہ بچے اور اس کے والد کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments