#Coronavirus: بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں ’طبی ایمرجنسی‘ نافذ


ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

گذشتہ روز ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد چار جبکہ اس وائرس سے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد 18 ہو گئی تھی جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی معاونت سے تفتان شہر میں 100 بستروں پر مشتمل خیمہ ہسپتال بھی قائم کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب صوبے میں محکمہ صحت نے گذشتہ ماہ سے اب تک ایران سے واپس آنے والے پاکستانی زائرین سے کہا ہے کہ وہ کھانسی اور بخار کی صورت میں فوری طور پر قریبی ہسپتال میں اپنا طبی معائنہ کرائیں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: پاکستان اس سے بچاؤ کے لیے کتنا تیار ہے؟

پاکستانیوں کی چین سے واپسی پر ممانعت تنقید کی زد میں

چین سے پاکستان آنے والوں کی نگرانی کیسے کی جا رہی ہے؟

اعلامیے کے مطابق تفتان بارڈر پر پہلے سے دو ڈاکٹر تعینات تھے جبکہ مزید سات ڈاکٹر آٹھ تھرمل گنز کے ساتھ تفتان پہنچ گئے ہیں جو ایران سے آنے والے زائرین اور دیگر مسافروں کی سکریننگ کریں گے جبکہ اسلام آباد سے این آئی ایچ کی ٹیمیں بھی تفتان پہنچ رہی ہیں جو طبی عملے کو تربیت دیں گی۔

بلوچستان کی ایران سے متصل سرحد پر کتنے اضلاع ہیں؟

کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق صوبہ بلوچستان کی ایران سے متصل اضلاع کی تعداد پانچ ہے۔ ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔

تاہم ان تمام اضلاع میں سے ایران اور صوبہ بلوچستان کے درمیان سب سے زیادہ آمد ورفت ضلع چاغی کے سرحدی شہر تفتان سے ہوتی ہے۔

تفتان جہاں قانونی طور پر ایران سے تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے وہیں ایران جانے والے پاکستانی زائرین کی آمد ورفت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔

ایران

ایران کی صورتحال ’انتہائی تشویشناک‘

ایران میں ہونے والی ان ہلاکتوں کے بعد گذشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم کا ایک اہم بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’یہ امکان کہ اس وائرس پر قابو پا لیا جائے گا ’کم‘ ہوتا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ بہت سے کیسز کا براہ راست اس مرض سے کوئی واضح تعلق نظر نہیں آتا جیسا کہ ٹریول ہسٹری یا تصدیق شدہ کیسز کی تاریخ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران میں ہونے والی اموات اور انفیکشن کی صورتحال ’انتہائی تشویشناک‘ ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں سامنے آنے والے کیسز کا مرکز مقدس شہر قم ہے۔ یہ دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع ہے جو کہ خطے میں شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔

ایران نے جمعہ کو قم میں مزید دو ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی اس سے قبل جمعرات کو بھی دو ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

ادھر ایرانی محکمہ صحت کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ایران کے تمام شہروں میں پہلے سے موجود تھا۔

بلوچستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات

ایران سے منسلک سرحدی علاقوں میں طبی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر کا آغاز کردیا گیا ہے۔

سرکاری اعلامیہ کے مطابق کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تفتان میں ایمرجنسی سینٹر قائم کر دیا گیا ہے۔

اس تناظر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس پر انھوں نے وائرس کی روک تھام اور سکریننگ کی سہولیات کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

اس سے قبل صوبہ بلوچستان میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث متعدد شہروں میں کورونا وائرس سے بچاﺅ کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

صوبائی محکمہ صحت کے مطابق بلوچستان میں کورونا وائرس کی مجموعی طور پر مانیٹرنگ اور اس کی روک تھام کے لیے 14 رکنی تکنیکی کمیٹی بنائی گئی تھی اور ان علاقوں کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی گئی تھی جہاں چینی باشندے موجود ہیں۔

ان علاقوں میں گوادر کے علاوہ ضلع چاغی میں سیندک اور کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا علاقہ دودڑھ شامل ہیں۔

گوادر میں کورونا وائرس کے حوالے سے تین مراکز قائم کیے گئے جبکہ صحت کے بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ایچ او نے خصوصی کٹس بھی فراہم کیں۔

خیال رہے کہ گوادر سمیت بلوچستان میں تاحال کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32665 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp