بچی نے خواب میں کیا دیکھا تھا؟


کچھ دنوں سے یہ سوال ذہن میں گردش کرنے لگا ہے کہ کووڈ نائنٹین کے ختم ہونے کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کیا کیا تبدیلیاں ہوسکتی ہیں؟ کیونکہ لوگ اب معتبر طبقے سے بھی سوال کرنے لگے ہیں۔ ہم دنیا کے بارے میں نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے چندسوالات کے بارے میں بات کرتے ہیں کیوں کہ جب سے وائرس پاکستان میں پھلنا شروع ہوا ہے لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے چائنیز کے لئے بھیجا گیا عذاب مسلمانوں تک کیسے پہنچا؟

حالانکہ کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے ہمارے منبر مالکان یہ بات کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ دیکھو چائنہ میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا اللہ نے عذاب میں مبتلا کردیا لیکن اب سوال ہوا کہ مسلمانوں (مفتی نعیم) تک کیوں؟ بائیو لوجیکل وارفیئر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بجٹ میں صحت اور تعلیم سے آج کے جدید دور میں بھی دفاعی بجٹ کیوں کئی گناہ زیادہ ہے؟ علاج کے لئے باہر جانے والوں نے غریب عوام کے لئے وینٹی لیٹرز کی ضرورت پہلے کیوں محسوس نہیں کی؟

مذہبی طبقہ ایک دن ہاتھ ملانے اور کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں بلکہ اس عمل کو ایمان کی کمزوری اور مضبوطی سے جوڑتے ہیں لیکن اگلے ہی دن کسی پولیس اسٹیشن میں کھڑے ہوکر ہاتھ ملانے اور ایک دوسرے سے وائرس کی وجہ سے دور رہنے کی درخواست کیوں کرتے نظر آتے ہیں؟ کل تک کے ”قصائی ڈاکٹرز“ آج کیوں اپنی قوم کو بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں؟ لوگ سوچنے لگے ہیں کہ کل کے بلڈی سویلین آج سیلوٹ کے حقدار کیوں ٹھہرے؟ اور سب سے بڑی بات قانون سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھنے والا طبقہ آج روڈوں پر کیڑے مکوڑوں کو سلامی دیتے ہوئے کیوں نظر آتا ہے؟

اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں اور یہ سوالات اٹھے کیوں خاص کر مذہب اور بجٹ کے بارے میں مجھے یاد ہے چند سال پہلے جب سولرانرجی۔ سسٹم آیا لوگ اس سے مستفید ہونے لگے اور ساتھ میں جس طرح ہر زمانے میں ایک جھوٹی کہانی مشہور ہوتی ہے اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ کہانی یہ مشہور ہوئی کہ فلاں علاقے کے فلاں مولوی صاحب نے کہا کہ فلاں علاقے میں ایک بچہ پیدا ہوا اور پیدا ہوتے ہی بولنے لگا کہ اے مسلمانوں سولر انرجی سسٹم کے استعمال سے سورج کو کمزور کرکے کیوں اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہو سولر انرجی سسٹم کا استعمال فوراً چھوڑ دو اور یہ بات کرتے ہی بچہ فوت ہوگیا۔

اس جھوٹی کہانی نے لوگوں میں خوف پھلایا تھا اب کچھ دن پہلے کورونا کے بارے میں پھر ایک بچی کی کہانی مشہور ہوئی کہ بچی مرنے سے پہلے کہہ رہی تھی کہ یہ وائرس نہیں اللہ کا عذاب ہے اور زیادہ سے زیادہ دہ گرین اور بلیک ٹی پیا کرو لیکن اس بار سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں نے کہانی کو نہ صرف منزل مقصود تک پہنچایا بلکہ اس سے جڑے درجنوں باباؤں کے درجنوں خوابوں کو بھی بے نقاب کیا۔

وائرس کے شروعات میں لورالائی کے ایک مولوی دوست سے بات ہو رہی تھی کہنے لگا یہ مرض مسلمانوں کے لئے نہیں ہے تم لوگوں کے ایمان کمزور ہے اس وجہ سے منہ چھپائے پھرتے ہو (ماس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اب کل دوبارہ اس دوست سے بات ہو رہی تھی جب میں نے علاقے کے بارے میں پوچھا کہنے لگا تقریباً سب ماسک کا استعمال کرنے لگے ہیں میں نے کہا صاحب آپ بھی؟ فرمایا جی میں بھی پہنتا ہوں لیکن فی الحال جیب میں رکھا ہے۔

لکھنے کا مقصد ہے اس وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ہمارے چند مولوی صاحبان کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچا ہے یا پہنچے گا لیکن ان صاحبان سے درخواست ہے کہ بروقت اپنے کاروبار کو ترک کر کے اللہ کے عذاب سے ڈرا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments