بڑے شاعر و ادیب کنوارے کیوں مرے؟


مستنصر صاحب! بڑے شاعر و ادیب کنوارے یوں مرے۔

مستنصر حسین تارڑ اپنے کالم میں چند بڑی ہستیوں کے نام لے کر فرماتے ہیں کہ بڑے شاعر و ادیب کنوارے کیوں مر گئے۔ انہوں نے عمر بھر عورت کی قربت سے، ایک بیوی کی رفاقت سے کیوں گریز کیا۔

بھائی صاحب! شاعر اور ادیب یا کسی بھی نارمل مرد کا عورت کے بغیر رہنا اس کا اپنا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ انہیں یقیناً لڑکی یا لڑکی کے ماں باپ نے رد کیا ہو گا۔

ان بڑے شاعروں کی اپنی ذات سے لاتعلقی اس کی وجہ بنی ہوگی۔ جو رات کو رو رو صبح کرے دن کو جوں توں شام کرے، ایسوں سے اگر کسی نے عشق کر بھی لیا ہو گا تو لڑکی کے ماں باپ نے لڑکی کو ہوش کے ناخن لینے کو کہا ہو گا۔

ان بڑے ادیبوں اور شاعروں کی مالی تنگی، قرض ادھار، دوسروں کے در پر پڑے رہنا، اپنا کوئی ٹھکانہ ہو بھی تو بہار کے آتے ہی صحرا کا رخ کرنے والوں سے زندگی بھر تعلق جوڑنا خود کشی کے مترادف ہے۔

وہ گھرانے جہاں اوصاف حمیدہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی لڑکی کے ماں باپ نے بچپنے میں ہی رشتہ پکا کر دیا اور لڑکپن روایتی الفاظ کے ساتھ کہ جس گھر جا رہی ہو اب وہاں سے جنازہ ہی نکلے، یوں شادی کے نام پر گھر سے جنازہ ہی نکال دیا تو بھلا ان ادیبوں اور شاعروں کی بیویاں جاتی بھی تو کہاں۔

اب جیسے ساغر صدیقی آگے پیچھے گھر ٹھکانہ کوئی نہیں، بھلا کون اس راندۂ در گاہ کے قریب آتی۔

جن بڑے ادیبوں اور شاعروں کا حوالہ مستنصر صاحب نے دیا، ذرا تصور کریں وہ فراز، افتخار عارف، علامہ اقبال، وغیرہ وغیرہ جیسے زیرک اور امیر ہوتے تو کم از کم دو بیویاں علانیہ ہوتیں اور ان گنت معاشقے ہوتے۔ وہ شاعر اور ادیب جو ایک ہی بیوی پر تکیہ کیے ہیں، مجبوری ہے کہ ان کی محدود آمدنی دوسرے تکیے کو افورڈ نہیں کر سکتی۔

خود پرستی، غربت، کاہلی، اور اپنی ذات سے بے پروائی جیسی صفات کی شہرت ان کی مجرد زندگی کی بڑی وجہ ہے۔ یہ کسی رشتے کو رد کریں ایسے حالات کبھی ہوئے ہی نہیں۔

عصمت چغتائی کا مشہور فقرہ ہے کہ لڑکیاں خواب شاعروں کے دیکھتی ہیں اور بچے سرمایہ داروں کے پیدا کرتی ہیں۔

سمجھداری اسی میں ہے کہ بچوں کو ہوش و حواس میں رہتے ایک نارمل باپ چاہیے ہوتا ہے۔ دیوان جمع کر کے بچوں کے اسکول کی فیس دی جا سکتی ہے۔ نہ دیوان کے عیوض سودا سلف آ سکتا ہے نہ ہی دیوان دیکھ کر ڈاکٹر نسخہ لکھ سکتا ہے۔ تو بھیا جی ان بڑے ادیبوں سے کسی نے شادی نہیں کی اور جو کر لی ہوتی تو۔ چھوڑیں ایک واقعہ سنیے

ایک خوب صورت مگر مجہول شاعر کی بیوی عام شکل کی ہیں۔ جاب کرتی ہیں۔ باہمت، پڑھی لکھی، محنتی ہیں۔ اپنی اور بچوں کی کفالت سے شاعر صاحب کو آزاد کیے رکھا۔ جب ان کے مداح نے ایک روز ان سے اس بے جوڑ شادی کی وجہ دریافت کی تو پوری سچائی سے فرمایا کہ میں تو کسی بھی لنگڑی، لولی، بھدی لڑکی کو پروپوز کر دیا کرتا تھا، یہ راضی ہو گئی۔

کم مائیگی کے احساس میں گرفتار ان بڑے ادیبوں اور شاعروں کی بیویاں اگر آخری دم تک ساتھ رہیں تو مستنصر صاحب اسے بھی ان بڑوں کی بے چارگی سے تعبیر کرتے ہیں۔

مستنصر صاحب انکساری کا اظہار کرتے ہوئے خود کو بڑا ادیب ماننے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ ان کی شادی ہو گئی یا کر دی گئی۔ مستنصر صاحب، صاف ستھرے، خاصے ہوش حواس میں تھے۔ ایک کنبہ رکھتے تھے، پیسہ اور شہرت کمانے کا فن جانتے تھے شکل، صورت، اسٹیٹس سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ اس لیے لڑکی والوں نے رشتہ رد نہیں کیا۔ بیگم بھی اب تک جڑی ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ جوانی اور ادھیڑ عمری میں گھر کم ہی رہے، اور رہے بھی تو خود میں گم رہے کہ نثر پوری جان مانگتی ہے۔ مستنصر صاحب فرماتے ہیں کہ

”اب یہ محققین کا کام ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ دنیا کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے آخر شادی سے کیوں گریز کیا“ ۔

ہماری درخواست ہے کہ محققین ساتھ ساتھ یہ بھی کھوج لگائیں کہ اصل میں کس نے گریز کیا۔

خواتین نے ان سے شادی کیوں نہیں کی، عمر بھر ساتھ نبھانے کے وعدے وفا کیوں نہ ہوئے۔ اور جو شادیاں ہوئیں بھی تو نا کام کیوں ہو گئیں، اور جو نبھا گئیں ان پر کیا بیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments