شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی“ میں سماجی مسائل (حصہ دوم)


مصنف پہلے کی طرح ایک اور اہم پہلو کو زیر بحث لاتے ہیں، سلمان جو بڑا جوشیلا طالب علم ہے وہ انسانیت کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے اس مقصد کے لیے ایک تنظیم میں شامل ہوتا ہے جس کا نام ”فلک پیما“ ہے، وہ فلاحی تنظیم تھی، اس تنظیم نے ایک ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا، اس کے فنڈز کا بڑا مسئلہ تھا لیکن جیسے تیسے کر کے پورا کر لیا جاتا ہے، جب ہسپتال کی تعمیر شروع ہونے لگی تو وہاں لوگوں کا ہجوم لگ گیا جس کی صدارات ایک مولوی کر رہا ہوتا ہے، وہ اس بات پر لوگوں کو ابھار رہا ہوتا ہے کہ یہ جگہ مسجد کی ہے اور یہاں مسجد ہی قائم کی جائے گی حالانکہ ”فلک پیما“ والے اس جگہ کی پوری قیمت ادا کر چکے ہوتے ہیں، لیکن مولوی کی تقریر اس قدر جذباتی ہوتی ہے کہ ہر ایک اپنی جان کا نذرانہ دے کر اس جگہ کو مسجد کے لیے ہی مختص کروانے کو تیار ہوتا ہے۔

”فلک پیما“ والے بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی ساری کاوشیں اکارت جاتی ہیں۔ وہاں بالآخر مسجد کی ہی تعمیر کی جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ اس حد تک مذہبی جنونیت میں غرق ہو چکا ہے کہ چاہے کوئی بھی ایسا کام جس میں انسانیت کی چاہے لاکھ بھلائی ہو، اگر اس پر مذہبی اجارہ داری قائم ہو جائے تو ہوتا یہ ہے کہ الہیاتی مہا بیانیے کا ہی قبضہ تسلیم کر لیا جاتا ہے اور تب فلاحی ادارے و انسان اپنی نجات اسی میں ہی جانتے ہیں۔

نیاز بہت خوش تھا اس کے راستے کی بڑی رکاوٹ ختم ہو چکی تھی۔ اس کو الگ کوٹھی مل جاتی ہے، ایک بڑا کنٹریکٹ بھی مل جاتا ہے، لیکن اس کا سلطانہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ رویہ بہت برا ہوتا ہے، ہر وقت اس کو مارتا پیٹتا ہے اور تھوڑے عرصے بعد اس کو گھر سے بھی نکال دیتا ہے۔ انو جب گھر سے نکلا تو اس کی عمر دس سال ہو گی ، وہ بے یار و مددگار ایک سڑک کنارے جا بیٹھتا ہے، وہاں وہ ایسے لوگوں کے ہاتھ لگتا ہے جو ایک نمبر کے بدمعاش، لوفر، لفنگے تھے۔

بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور برے رویے کے ساتھ پیش آنا انتہائی غلط ہے اس سے بچے کی شخصیت پر برے اثرات پڑتے ہیں اور اس سے بچے کے اندر خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے اور جب تک وہ اپنی جوانی کو پہنچتا ہے تب تک وہ جرائم کی ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہوتا ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ سلطانہ، انو کی غیرموجودگی کو لے کر بہت پریشان ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ اسے بھولنے لگتی ہے۔ اس کو کبھی تو یہ خیال آتا تھا کہ وہ اس بند کوٹھی سے بھاگ جائے لیکن وہ جائے گی کہاں؟ اب اس کا سوائے نیاز کے کون تھا، کبھی اس کو سلمان کا خیال آتا مگر اس کے خیال سے اس کا دم ہی گھٹنے لگتا ہے۔ محبت جہاں انسان کو انسان کے قریب لاتی ہے اور احساس کا رشتہ پیدا کرتی ہے، وہیں اگر نفرت پیدا ہو جائے یا کی جائے تو وہ ایسا شگاف بھی پیدا ہو جاتا ہے جو مرتے دم تک نہیں بھرتا۔

”فلک پیما“ جو خوب ترقی کر رہی تھی ، جب اس نے سیاست میں شمولیت اختیار کی تو اس میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو گئے، وہ نت نئے الزامات کی زد میں آ گئی، ادھر سیاسی جماعتوں نے عوام میں اس قدر نفرت ڈال دی کہ عوام ایسے اشتعال میں آئے کہ انہوں نے ”فلک پیما“ کا دفتر ہی گرا دیا، ڈسپنسری ہوم کو توڑ پھوڑ دیا گیا، تعلیم بالغاں کے سکول کو بھی نقصان پہنچایا گیا، جس سے ”فلک پیما“ کی تنظیم بالکل کھوکھلی ہو گئی بلکہ تقریباً ختم ہو کے رہ گئی، بہت سارے ارکان زخمی ہو گئے، کچھ حوالات میں بند کر دیے گئے۔

سیاست کی اداروں میں بے جا دخل اندازی سے جہاں خود اداروں پر برے اثرات پڑتے ہیں وہیں سماج پر بھی اس کے برے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سماج میں سیاست عموماً ولگر طرح کا کردار ادا کرتی ہے، کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست نے ڈویلپمنٹ پروجیکٹس میں بے لوث کردار ادا کیا ہو۔ اگر کوئی تنظیم سماج میں دیانت داری سے محنت کر رہی ہو تو یہ لوگ اس کو تباہ کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی سیاست بدنام ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں، اس سے لوگوں کے دلوں میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کا قد کاٹھ کم ہو جاتا ہے اور اس فلاحی جماعت کو بڑھاوا ملتا ہے جو ان کے لیے بہت خطرے کا باعث ہوتی ہے۔

ان سیاسی سرگرمیوں سے تنگ آ کر سلمان کچھ دنوں کے لیے گھر چلا جاتا ہے گھر میں وہ بہت ساری تبدیلیاں دیکھتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے اصرار پہ ایک امیر گھر میں شادی کر لیتا ہے اور اس کو کراچی میں نوکری بھی مل جاتی ہے۔ وہاں وہ ایک دن نوشا کو دیکھتا ہے لیکن نوشا اس سے نظریں چرا کر نکل جاتا ہے۔ نوشا اور راجہ کراچی میں جرائم کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں اور اس باعث وہ چار ماہ کی جیل بھی کاٹتے ہیں۔ راجہ، جیل میں سپرنٹنڈنٹ سے مار کھانے سے بیمار ہو کر ہسپتال چلا جاتا ہے جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے یہ کہہ کر کہ اس کو کوڑھ کی بیماری ہے اور اسے ہسپتال سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

نوشا، اپنی سزا پوری کر کے نکلتا ہے تو وہ پھر جیب کترے کے ساتھ مل کر وہی کام شروع کر دیتا ہے۔ ایک دن پکڑے جانے پر خوب مار کھاتا ہے اور تب وہ تہیہ کرتا ہے کہ وہ اب سب کچھ چھوڑ دے گا اور چھوڑ بھی دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ ایک گیراج میں کام شروع کر دیتا ہے اور ایک پروفیسر کے ہاں رہائش رکھتا ہے وہاں خوب محنت سے کام کرتا ہے اور ہشاش بشاش رہنے لگتا ہے، کبھی کبھی اس کو گھر کی یاد آتی ہے کہ ماں کیسی ہو گی؟ انو، بڑا ہو گیا ہو گا، سکول جاتا ہو گا۔ سلطانہ کی شادی ہو گئی ہو گی۔ وہ کئی بار کافی دیر تک لیٹا یہی سوچتا رہتا۔

سلمان ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن اس کا افسر جس کا نام جعفری صاحب تھا ، اس سے اس کی اچھی دوستی ہو جاتی ہے وہ روز اس کے گھر آنے لگتا ہے۔ پھر کچھ روز بعد جعفری صاحب، سلمان کی بیوی کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگتا ہے، اس کو ہر روز باہر لے جانا گھمانا پھرانا، یہ بات سلمان کو بہت بری لگتی لیکن وہ کچھ نہ کر سکتا تھا کیوں کہ اس کو نوکری جانے کا ڈر تھا۔ مگر ایک دن تنگ آ کر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور نوکری بھی چھوڑ دی۔

پیسہ انسان سے بعض دفعہ کئی چیزیں چھین لیتا ہے، تب پیسہ ہر چیز پہ حاوی ہو جاتا ہے، اس کے سامنے ڈٹے رہنا بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ سلمان کی محبت نے کچھ کام نہ کیا جو جعفری صاحب کے پیسے نے کر دکھایا اور محبت (بظاہر محبت) بھی پیسے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ نوشا نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر کا چکر لگائے، اس نے آخری ملاقات راجہ سے کی ، اسے خیر باد کہہ کر وہ ٹرین پہ سوار ہوا اور اپنے گاوٴں پہنچا۔ وہ تمام راستے میں اپنے بچپن کی یادوں میں کھویا رہا، جب اسٹیشن پہ پہنچا تو شامی کو وہاں پایا۔ اس سے بڑی گرم جوشی سے ملا،  وہ رکشہ چلاتا تھا وہ دونوں کافی دیر وہیں کھڑے باتیں کرتے رہے ، پھر نوشا نے شامی سے کہا چل مجھے گھر چھوڑ آ، شامی نے پوچھا کون سے گھر؟ نوشا نے کہا میرے اپنے گھر!

تب شامی نے بتایا وہ تو کب کا بک گیا۔ نوشا نے کہا تو اب میری ماں کہاں رہتی ہے؟ شامی تھوڑی خاموش رہا پھر دبی ہوئی آواز میں بولا وہ تو دو سال پہلے کی وفات پا چکی ہیں۔ نوشا یہ سنتے ہی سکتے میں آ گیا، جیسے اس کی سانسیں ختم ہو چکی ہوں۔ اس کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اس کی دنیا ختم ہو چکی تھی وہ شامی کے کندھے سے لگ کر خوب رویا پھر اس نے انو کا پوچھا۔ شامی نے بتایا وہ گھر سے نکل گیا تھا، ہیجڑے کے ہتھے لگا ، اس نے اسے اپنے جیسا بنا دیا ہے اور سلطانہ نیاز کے ساتھ رہتی ہے۔

شامی نے یہ بھی بتایا کہ پورے محلے میں مشہور ہے کہ نیاز نے اس کی ماں کو مارا ہے کیوں کہ وہ سلطانہ کو پسند کرتا تھا، اس لیے پہلے اس نے اس کی ماں سے شادی کر کے اسے مارا اور بعد میں سلطانہ سے شادی کر لی۔ نوشا نے یہ سنا تو بلبلا اٹھا اور شامی سے کہا مجھے نیاز کے گھر چھوڑ، شامی نے اسے وہیں جا کر چھوڑ دیا۔ نوشا دیوار پھلانگ کر گھر میں گھسا، نیاز سو رہا تھا ، اس نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ، چاقو سے نیاز پہ وار کر دیا۔

نیاز نے چیخنے چلانے کی کوشش کی مگر نوشا نے اس سے پہلے اس کا کام تمام کر دیا تھا۔ سلطانہ نے چیخنے کی آوازیں سنیں تو بھاگ کر آئی، دیکھا تو نیاز کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں، نوشا کے ہاتھ خون آلود تھے۔ وہ دروازے سے باہر جا رہا تھا ، اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اسے روک لے لیکن وہ نہ رکا۔ نوشا نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

سلطانہ بھی وہ گھر چھوڑ کر اپنے بچے ایاز کے ساتھ ”فلک پیما“ چلی گئی ، وہاں اس نے احمد علی جو اہم کارکن تھا اس سے شادی کر لی۔ انہوں نے مل کے نوشا کو رہا کروانے کی کوشش کی لیکن وہ خود جرم کا اعتراف کر چکا تھا، اس کو چودہ سال کی سزا ہوئی وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا مجے پھانسی دو ، مجھے پھانسی دو۔

اس وقت جب اس کے ہم عمر لڑکے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر کے ممالک اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ جب اس کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا تب اس کے ہاتھ میں چاقو تھا، اس کے ہاتھ خون سے لت پت تھے، صرف وہی نہیں بلکہ اس کے دوست شامی، راجہ اور بہت سارے لڑکے۔

غریب بچے تو ایسے ہی امیروں کے ہاتھوں ہمشیہ کے لیے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں سکون کی زندگی صرف امیروں نے اپنے قبضے میں لی ہوئی ہے یا وہ درندے جو غریبوں کا خون چوستے ہیں یا جو بے ایمانی کرتے ہیں، غلط طریقے سے پیسہ کماتے ہیں، اس معاشرے میں محض پیسے کو فوقیت دی جاتی ہے، انسان کو نہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر کے ان کو غربت کی چکی میں اس طرح پیسا جاتا ہے کہ وہ زندگی نام کی شے بھی کھو جاتے ہیں۔

مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments