سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلیٹنگ کا معاملہ: ’سپریم کورٹ سے رائے مانگی ہے تو عدالت کو اس کا جواب آئین کی روشنی میں ہی دینا ہوگا‘


پاکستان کا پارلیمان

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ایک سیاسی معاملہ ہے اور سپریم کورٹ کو خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کرنا ارکان پارلیمان کا اختیار ہے اور عدالت پارلیمنٹ کے اختیار اپنے ہاتھ میں نہ لے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے میں سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔

اپنے دلائل میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام تاثر یہ ہے کہ اوپن بیلیٹنگ کروانے سے رشوت ختم ہو جائے گی تو یہ تاثر غلط ہے کیونکہ رشوت لینے اور دینے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت گذشتہ چند ہفتوں سے جاری ہے۔

بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل نے کہا کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 226 کے بارے میں جو خفیہ رائے شماری سے متعلق ہے، سپریم کورٹ سے رائے مانگی ہے تو عدالت کو اس کا جواب آئین کی روشنی میں ہی دینا ہو گا اور اگر اس سے ہٹ کر کوئی رائے دی گئی تو عدالت کے متنازعہ ہونے کے بارے میں تاثر قائم ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو کردار ہیں ایک کردار وہ کہ جب دو فریق مقدمے بازی میں آتے ہیں تو اس بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے اور دوسرا جب کسی قانونی اور آئینی پہلو پر عدالت عظمیٰ سے رائے مانگی جاتی ہے۔

صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ ’دوسرے معاملے میں سپریم کورٹ کو احتیاط سے کام لینا ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ الیکشن: ڈر کاہے کو

سینیٹ الیکشن: تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘؟

ڈسکہ ضمنی الیکشن: آر او نے الیکشن کمیشن کو کیا بتایا؟

جیت کر بھی ہار جانے کا خوف، آخر کیوں؟

اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس پہلو کو نہیں دیکھ رہی کہ اس ریفرنس سے کسی کو فائدہ ہوگا یا نہیں۔

سندھ بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کے معاملے پر جب انڈین صدر نے سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی تو سپریم کورٹ نے یہ معاملہ صدر کو واپس بھجوا دیا تھا اور اس پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ صدر نے آئین کے آرٹیکل 226 کے بارے میں رائے طلب کی ہے جبکہ اس بارے میں ایک بل پارلیمان میں بھی پیش کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ

انھوں نے کہا کہ دو سال پہلے سینیٹ کے انتخابات میں مبینہ طور پر رشوت لینے کی ویڈیو سامنے آئی ہے تو اس کا جائزہ لینا پارلیمان کا اختیار ہے سپریم کورٹ کا نہیں۔

سندھ بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو بھی نظر میں رکھے کہ اس صدارتی ریفرنس کے حق میں اٹارنی جنرل اور تین صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل نے جو دلائل دیے ہیں ان سب کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ان عہدوں پر تعینات کیا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اس صدارتی ریفرنس میں پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کے فریق بننے پر اعتراض کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ صدر نے تو صرف آئین کے آرٹیکل 226 پر رائے مانگی ہے اس لیے عدالت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے فریق کو بھی سنے تاہم عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ اگر عدالت عظمی الیکشن ایکٹ سنہ 2017 کو ختم کر دے اور حکومت یہ تصور کر لے کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے تو ایسا نہیں ہو گا اور الیکشن کمیشن کے پاس اس کا نعم البدل ضرور ہو گا کیونکہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

انھوں نے کہا کہ عام تاثر یہ ہے کہ اوپن بیلیٹنگ کروانے سے رشوت ختم ہو جائے گی تو یہ تاثر غلط ہے کیونکہ رشوت لینے اور دینے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔

اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی رکنِ پارلیمان پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے کسی مخالف امیدوار کو ووٹ دیتا ہے تو وہ اس سے نااہل نہیں ہو جاتا۔

سپریم کورٹ

انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بہت سے ایسے بل آتے ہیں جس میں کبھی حکومت حزب مخالف کی حمایت کرتی ہے اور کبھی اپوزیشن حکومت کی حمایت کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں حکومت نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 226 کے بارے میں رائے طلب کی ہے اور سپریم کورٹ صرف آئین میں ہی اس کا جواب تلاش کر کے رائے دے۔

سماعت کے دوران جمیعتِ علمائے اسلام کے وکیل جہانگیر جدون جب دلائل دینے کے لیے آئے تو بینچ کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا کہ اس جماعت کے وکیل تو کامران مرتضٰی ہیں جنھوں نے اپنے دلائل دینے ہیں تاہم جہانگیر جدون نے عدالت میں پاور آف اٹارنی پیش کی۔

اپنے دلائل کے دوران جب وہ دنیا کے مختلف ملکوں کی عدالتوں میں خفیہ رائے شماری کے بارے میں دیے گئے فیلصوں کا حوالہ دینے لگے تو بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے جہانگیر جدون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں کا ہمارے آئین سے کیا تعلق ہے۔

جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ ’آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔‘ عدالت کی طرف سے اس طرح کے ریمارکس آنے کے بعد جہانگیر جدون نے اپنے دلائل ختم کر دیے۔

جمعرات کو اٹارنی جنرل جواب الجواب دلائل دیں گے اور امکان یہ ہے کہ جمعرات کو ہی عدالت اس بارے میں کوئی مختصر حکم نامہ سنائے گی یا فیصلہ محفوظ کر لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32667 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp