متی استعبدتم الناس کی مشعل اور ہماری غافل انتظامیہ


مصر کا شہر ہے دوڑ کا مقابلہ ہے، ایک عام شہری گورنر کے بیٹے سے سبقت لے جاتے ہیں۔ یہ بات گورنر کے بیٹے کو بری لگی اور اس عام شہری کو کوڑوں سے مارنا شروع کیا۔ اور کہنے لگا۔ ”انا ابن الاکرمین“ میں معززین کا بیٹا ہوں۔

شہری فریاد لے کر مدینہ پہنچے، حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فریاد کرنے لگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ نے گورنر اور ان کے بیٹے کو طلب فرمایا۔ فریقین کے دلائل سنے گئے۔ بدو اپنے دعویٰ میں سچا ثابت ہوا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تاریخی جملہ فرمایا ”اضرب ابن الاکرمین۔ اسی کوڑے سے معززین کے بیٹے کو مارو۔

اور پھر آپ نے گورنر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :
متى استعبدتم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احراراً۔
آپ نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا ہے؟

اس کے بعد کبھی خلافت عمر میں کسی ابن الاکرمین کو جرات نا ہوئی کہ کسی عام شہری، بدو، بے بس و بے کس پر ہاتھ اٹھائے۔

پرسوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کیا ہمارے حکمران، انتظامیہ اتنی بے بس اور اپاہج ہو گئی کہ سانڈھوں کو کھلا چھوڑا گیا ہے عوام کے حقوق کی پامالی کرتے رہیں؟

گرمیاں شروع ہوتے ہی ہم نے پانی فراہمی کے منصوبوں پر کام کرنا شروع کیا۔ مخیر حضرات دل کھول کر اپنی دولت خدمت خلق پر لٹانے لگے۔ کہ اس تپش میں کوئی چرند پرند انسان پیاسا نا رہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تین پانی پروجیکٹ مکمل کیے جس سے درجنوں خاندان اور کئی سو مویشی اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ اسی دوران ایک بڑھیا روزانہ میرے گھر آتی کہ بیٹا ہمارے دس گھر ہیں پانی کی شدید تکلیف ہے ہمیں ایک سولر سبمرسیبل پمپ لگا کر دیں آپ کو دعائیں دیں گے۔ میں نے کہا اماں سبمرسیبل پمپ تو کل ہی لگا کر دیں لیکن آپ کے گاؤں کا جو راجہ ہے وہ چربٹ کا بھی بابا ہے۔ کہیں ایسے نا ہو کہ ہم لگا کر دیں وہ اور اس کے لڑکے اسے اکھاڑ پھینک دیں۔ آپ ایک بار ان سے پوچھ لیں کیا کہتے ہیں۔

بڑھیا گاؤں کے نام نہاد مالک ستر سالہ شخص کے پاس گئی ان سے کہا کہ گرمی کا موسم ہے پانی کی شدید تکلیف ہے ہمیں ایک بندہ فی سبیل اللہ پانی کا پمپ لگا کر دے رہا ہے آپ کی اجازت ہو۔ اس شخص نے کہا نہیں آپ لوگ مسعود سے پانی نہیں لے سکتے ہو۔

بڑھیا دوسرے روز میرے پاس آئی کہنے لگی بیٹا آپ کی مہربانی لیکن ہمیں پانی لینے سے منع کیا گیا ہے۔

یہ اکیسویں صدی ہے اور سندھ کے دیہات کی یہ حالت ہے کہ وڈیرے خود تو اپنی جیب سے کچھ دینے کو تیار نہیں لیکن کوئی این جی او دینا چاہے تو بھی لوگوں کو محروم رکھتے ہیں۔

یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے 13 رمضان المبارک کو اسی شخص کے بھتیجے بھانجوں نے ایک نہتے کولہی کے گھر میں رات کے وقت نشے کی حالت میں گھس کر لہولہان کیا تھا۔

مجھے افسوس ہوتا ہے ہماری انتظامیہ ستو پی کر سو رہی ہے۔ سنگ مقید ہیں سگ آزاد ہیں۔ ایس ایچ او کھاہی تو جیسے پبلک سرونٹ نہیں فیوڈل سرونٹ ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر کھپرو، آل رسول کہلاتے ہیں لیکن انہیں بھی ذرا احساس نہیں کہ کربلا میں شمر نے جب آل رسول کا پانی بند کیا تو کس تکلیف سے خانوادہ رسول گزرا تھا۔

حب اہل بیت یہ نہیں کہ محرم کے دس روز کالے کپڑے پہن لیے جائیں۔ حب اہل بیت کا تقاضا ہر یزیدی ہتھکنڈے کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔

آخر میں میں سانگھڑ کی پہچان، غریبوں کی بہنوں، دکھی انسانوں کے سہارے میڈم شازیہ عطا مری صاحبہ اور سینیٹر قراہ العین مری صاحبہ سے گزارش کروں گا آپ کا ووٹر عقیدت کی زنجیروں سے تو آزاد ہوا ہے لیکن امراء کی اجارہ داری ابھی بھی جاری ہے۔ ایسے لوگوں سے سر عام لا تعلقی کا اظہار کریں جو جبرا انسانوں کو غلام بنائے بیٹھے ہیں ان کی نقل و حرکت پر قد و غن ہے ان کے سانس لینے پر پابندی ہے۔

وقت کا تقاضا ہے ایک بار پھر سے ”متى استعبدتم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احراراً“ کا چابک لہرائے اور ابن الاکرمین کو کسی دھنے کولہی کے گھر میں گھسنے کی جرات نا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments