پاکستان کے ڈرامے یا ڈرامے بازیاں


یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ ایک وقت ہوا کرتا تھا جب پی ٹی وی پر اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور رضیہ بٹ جے سے ادیبوں کے لکھے ہوئے ڈرامہ چلا کرتے تھے اور یہ ڈرامے گلیاں سنسان کردیتے تھے کیا بچے کیا نوجوان کیا بوڑھے سب ہی شوق سے یہ ڈرامے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی آرام سے بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے نہ کوئی ایسا سین یا ڈائیلاگ کا ڈر جو سامنے والے کے لئے شرمندگی کا باعث بنے۔ ایسے ڈرامے پاکستان میں تقریباً 2000 کی دہائی تک بنتے رہے جس میں نا کوئی گلیمرازم، نہ کوئی فحاشی نا عرانیت اور نہ ہی کوئی ایسا ڈائیلاگ ہوتا تھا۔

پاکستان کی ٹی وی انڈسٹری بظاہر تو بہت ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن اس نے اپنا وہ چارم کھو دیا ہے جو آج سے تیس سال پہلے ہوا کرتا تھا اخلاق روز بہ روز گرتا چلا جا رہا ہے چاہے وہ ڈرامے ہوں یا اشتہارا ت کوئی بھی بندہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر آج کل کے ڈرامے نہیں دیکھ سکتا اور اب تو بات اشتہارات تک بھی جا پہنچی ہے۔ ہم نے اپنے ڈراموں میں فحاشی اور عرانیت کو اتنا زیادہ پروان چڑھادیا ہے کہ ہم بھول چکے ہیں کہ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں مانا کہ یہ جدید دور ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم اپنا آپ ہی کھو بیٹھیں۔

ہم نے انڈین کلچر کو بھی اپنے ڈراموں کا حصہ بنا دیا ہے آج کل ہر ڈرامہ انڈین کلچر کی کاپی کرتے ہوئے گلیمرازم کو فروغ دے رہا ہے کوئی کہانی پر توجہ نہیں دے رہا کہ کہانی میں کیا کیا ہونا چاہیے صرف ایک ہی ٹاپک ہمارے پاس رہ گیا ہے جس میں ساس اپنی بہو سے پریشان ہے بہو اپنی ساس سے، بہنوئی کا اپنی سالی سے عشق چل رہا ہے، باس کا اپنی ملاز م سے۔ یہ تقریباً ہر ڈرامے میں آج کل دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے تو ہم ہالی وڈ کی ٹی وی سیریز کو بہت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن خود اپنے اندر جھانک نہیں دیکھ رہے کہ ہمارے ڈراموں میں کیا ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ریپ کیسز کی بڑھنے کی وجہ ایک یہ بھی ہے جو آج کل فحاشی ہمارے میڈیا پر دکھائی جا رہی ہے۔ فضول پیسہ خرچ کرنے کا رواج بھی بنتا جا رہا ہے ہمارے ڈراموں میں۔ حال ہی میں ایک ڈرامے میں دلہن کا جب نکاح ہوتا ہے تو اس کا حق مہر میں 25 کروڑ رکھوایا جاتا ہے پاکستان جیسے غریب ملک میں تو 25 کے جتنے حق مہر میں 25 کروڑ غریب لڑکیوں کی شادی ہو سکتی ہے جتنا حقیقت سے دور ہمارے ڈراموں میں چیزیں دکھائی جا رہی ہیں۔

ہمارے ڈرامے، ڈراموں سے زیادہ ڈرامے بازیاں لگ رہی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے ہمارے لئے کہ ہم کہاں اپنے آپ کو لے کر جانا چارہے ہیں ہم اخلاقی پستی کا اتنا زیادہ شکار ہوچکے ہیں کہ اس سے نکلنے میں بھی ہمیں اگلے 100 سال لگ سکتے ہیں یا شاید کبھی نہ نکلیں۔ ہمیں اگر اپنی نوجوان نسل کو تباہی سے بچانا ہے تو ہمیں یقینی طور پر اخلاقی پستی سے نکلنا ہوگا ہمیں اپنا ڈراموں کا معیار اچھا کرنا ہوگا۔ ڈرامے بنانے سے کسی نے نہیں روکا نہ ہی کوئی روکے گا لیکن اگر معیار اسی طرح گرتا جائے گا تو ہمیں تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ہمیں معیاری اور اچھی اچھی صاف ستھری کہانی لکھنے والے لکھاری ڈھونڈنے ہوں گے جو ہمیں دوبارہ اخلاقی عروج پر لے کر جاسکے۔ پہلے زمانوں میں ایکٹنگ کے لئے باقاعدہ کلاسز لی جاتی تھیں اچھے اور معیاری اداکاری بھی ہوتی تھی لیکن افسوس آج کل ایک دو اداکار کے علاوہ ہمارے کسی اداکار کو اچھی اداکاری نہیں آتی جس پر بندہ شاباشی دیے بنا نہ اٹھے۔ افسوس ہے کہ ہم ایکٹنگ کلاسز کے بجائے اداکار ٹک ٹاک سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے جا رہے ہیں جس کی تازہ مثال بھی آپ سب کے سامنے ہیں۔

میں اتنا زیادہ کوئی زیادہ ٹی وی دیکھنے والا نہیں ہوں لیکن جو نظر آ رہا ہے اس پراپنی ناقص رائے دے رہا ہوں جتنا میں آواز اٹھا سکتا ہوں اٹھاؤں اپنے ملک کی نوجوان نسل کو اگر ہم بچانا ہے فحاشی سے عریانیت سے تو ہم سب کو مل کر آواز اٹھانا ہوگی تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل کو صحیح راستے پر گامزن کر سکیں اور ترقی کی راہ پر چل سکیں۔ امید ہے آپ کو میرا چھوٹا سا لکھا گیا مضمون ضرورت پسند آیا ہوگا۔ آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔ شکریہ اللہ حافظ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments