عظیم ایدھی کی پانچویں برسی!


دنیا میں سینکڑوں مختلف مذاہب ہیں جن کے مزید سینکڑوں مختلف فرقے ہیں اور ہر فرقے کے مختلف عقائد کے ساتھ لاکھوں کروڑوں پیروکار دنیا میں کہیں نہ کہیں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں ہر عورت کی کوکھ سے پیدا ہونے والا بچہ ایک انسانی اساس پر جنم لیتا ہے لیکن لڑکپن سے لے کر بالغ عمری کے درمیان ہی اس پر کسی مذہب یا فرقے کی چھاپ لگا دی جاتی ہے اور اس کی باقی ماندہ زندگی اسی مخصوص محور سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ انسان کو کیوں پیدا کیا گیا؟ ہمیں انسانی اساس پر پیدا کر کے اشرف المخلوقات کا درجہ کیوں نوازا گیا؟ ہمارا وجود کا بنیادی کردار کیا ہے؟ دنیا بھر میں جتنے بھی مذاہب عمل پیرا ہیں ان سب میں جو ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے وہ ہے ”انسانیت“ ! کیونکہ کوئی بھی ایک مذہب انسانیت کے استحصال کا پرچار نہیں کرتا بلکہ ہر ایک مذہب کی بنیادی اساس بھی انسانی فلاح و بہبود پر قائم ہے۔

ذرا سوچیں! دنیا کی اربوں کی تعداد میں انسانوں کی کتنی تعداد اور کون سے طبقے کے لوگ اس بنیادی اساس پر زندگی کو گامزن کیے ہوئے ہیں؟

ہر مذہب و فرقے و شہریت کی تقسیم سے پہلے دنیا کے ہر انسان کا ہر دوسرے انسان سے ”انسانیت“ کا رشتہ قائم ہے لیکن مذہبوں، فرقوں اور پارٹیوں نے اس بنیادی رشتے کو مختلف چادروں میں اوڑھ کر چھپا دیا ہے اور آپس میں تقسیم در تقسیم کر دیا لیکن اللہ تعالٰی شروع دن سے اس دنیا میں اپنے خاص انسانوں کو بھیجتا چلا آ رہا ہے جو اپنی زندگی اسی انسانی رشتے پر غالب چادروں کو اتار کر ان کو یکجا کرنے کے بارے سوچ و فکر و عمل کرتے ہیں اور بلا امتیاز ان کے دکھ درد کا مداوا بنتے ہیں۔ ان کے لیے ایک مسیحا کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے انسان وہی ہوتے ہیں جو انسانیت کی تخلیق کے بنیادی مقصد کو واضح کرتے ہیں۔

ایسے چند خاص انسانوں میں پاکستان کی دھرتی پر بھی عبدالستار ایدھی کے نام سے جنوری 1928 میں ایک فرشتہ صفت انسان نے جنم لیا جس نے اپنی زندگی کو پوری دنیا میں تخلیق انسانیت کے مقصد کو عملی نمونہ کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور 8 جولائی 2016 کو اپنے تخلیق کار کے پاس پہنچ گئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)

میرے والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے۔ بیٹا ”انسان ہی انسان کا دارو ہے“ دراصل وہ انسانی تخلیق کے مقصد کو ایک لائن میں بیان کر دیتے تھے اور ایدھی صاحب کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہی وہ ’دارو‘ ہیں جن کا ذکر والد صاحب کرتے تھے۔ ہم اپنے گھر و معاشرے کا جائزہ لیں کہ کتنے لوگ حقیقی انسان ہیں تو ہمیں بڑی تگ و دو کے بعد شاید ہی اکا دکا ایسے انسان ملیں گے ہاں مگر ہمیں کئی مومن، مسلمان، مولوی، ذاکر، صوفی، سردار، مہر، خان، سیٹھ، چوہدری و دیگر کئی ٹھاٹھ باٹھ والے ہزاروں لاکھوں کی تعداد وافر مقدار میں مل جائیں گے اور یہی المیہ ہے کہ ہم سب اپنی بنیادی انسانی اساس سے کوسوں دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم کہنے سننے کی حد تک تو بہت ترقی کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ہم اپنی بنیادی اقدار سے محروم ہونے میں چار قدم آگے چل رہے۔

عبدالستار ایدھی صاحب ایک سادہ سے عام پاکستانی تھے جو نہ تو مولوی تھے، نہ ذاکر، نہ علامہ، نہ مفتی، نہ رئیس نہ ہی کوئی مذہبی و روحانی پیشوا اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی، تجارتی، سرکاری و غیرسرکاری تنظیم کے سربراہ! بس وہ تھے تو

بس ایک سادہ سا انسان۔

عبدالستار ایدھی جیسے انسانوں کے لیے کسی قسم کی کوئی تقسیم نہ تھی خواہ وہ کوئی شیعہ ہو، یا سنی ہو، یا بریلوی ہو، یا وہابی ہو، یا مسلمان ہو، یا ہندو ہو، یا عیسائی ہو، یا کوئی بلوچی ہو، یا پنجابی ہو، یا سندھی ہو، یا پختون ہو اور حتی کہ دنیا بھر کے کسی مذہب، ملک، فرقے یا نسل کا ہو ایدھی صاحب کی سوچ و عمل پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوں کہ ان کے لئے تو بس انسان ہونا ہی کافی تھا اور بس پھر وہ ان کے لیے باپ بھی بن جاتے، ماں بھی، بھائی بھی، بہن بھی اور مسیحا تو تھے ہی!

آج ایدھی صاحب کو ہم بچھڑے پانچ سال ہو گئے مگر دنیا کے تمام مذاہب، فرقوں اور قوموں کو ہر جگہ ایک عبدالستار ایدھی کی شکل میں انسانی مسیحا کی اشد ضرورت ہے۔ آئیں سب مل کر عہد کریں کہ ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں ہم ایدھی صاحب کے انسانی خدمت کے عظیم مشن کی تکمیل میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو ہماری اساس بھی انسانی ہے مگر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم سب میں ایک عبدالستار ایدھی موجود ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ایدھی میں جان ڈالیں تب آپ کی آنکھیں ایدھی کی آنکھیں بن جائیں گیں اور پھر آپ کو اپنے اردگرد لاوارث، یتیم، مسکین، غریب، مریض، لاچار اور مستحق لوگ نظر آنا شروع ہوجائیں گے اور آپ بھی دارو بن کر لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرسکیں گے۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ خدارا نفرتوں کی چادریں اتاریں اور بے لوث و بلا امتیاز انسانیت کے لیے ’دارو‘ بن جائیں۔ یہی ایدھی کا خواب ہے اور یہی ہماری حقیقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments