کیا عورت کی یہ عزت ہے؟


یہ ایک مغالطے بھری مشہور کہاوت بن چکی ہے اب کہ ہمارے معاشرے میں خاتون کی جتنی عزت ہے کہیں نہیں ہے۔ مثال یہ دی جاتی ہے کہ فلاں گوری دیکھی ہے کیسے اکیلے (فوج اور پولیس کی سکیورٹی میں) پورے پاکستان میں گھومتی رہی ہے؟ آپ لبرل بس جھوٹ بولتے رہو۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ ریپ ہوتے ہیں نہ خواتین کے ساتھ زیادتیاں۔ اگر ہوتا بھی ہے تو ان کا اپنا قصور ہوتا ہے، اکیلے کیوں باہر گئیں؟ (موٹروے کیس) ، ناجائز تعلقات کیوں تھے؟ (نور مقدم کیس) ، کپڑے کیسے پہنے تھے؟ خود جو بلایا تھا (مینار پاکستان کیس) جیسی چند مثالیں اس کی گواہ ہیں۔ اور تو اور ہمارے وزیراعظم بھی اس سب کا الزام وکٹمز پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کپڑوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور کبھی موبائل فونز کو اور لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ لیکن جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ریپ کا ذمہ دار صرف اور صرف ریپسٹ ہے یا ریپ کے صرف چھ فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیں تو کوئی بھی یقین نہیں کرتا اور واپس اس دقیانوسی بیانیے کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان جیسے مقبول رہنما بھی مسئلے کا کاز (علت) نہیں بلکہ ایفیکٹ (معلول) ہیں۔

مورخہ چھبیس اگست کو جنگ اخبار کے صفحہ نمبر دس (کراچی ایڈیشن) پر ایک ساتھ نو جنسی زیادتی کے کیسز کی خبریں چھپیں۔ آئیے ذرا ان کیسز کے حساب سے ایک نیم سائنسی جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہمارے مذکورہ بالا اعتقادات درست ہیں یا مغالطوں پر مبنی ہیں۔

اگر یہ ایک ہفتے کے بھی رپورٹڈ کیسز ہیں جو کہ 9 ہیں تو چھ فیصد کے حساب سے صرف پچھلے ہفتے ایک سو پچاس خواتین زیادتی کا نشانہ بنیں۔ ان نو میں سے 45 فیصد کم عمر بچیاں ہیں اور 11 فیصد نوعمر بچے یعنی آپ 56 فیصد کیسز میں موبائل اور کپڑوں کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ 11 فیصد ذہنی مریض بچیاں۔ 45 فیصد اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنیں جبکہ باقیوں کا طے نہیں ہے کہ رشتہ دار اس عمل میں شامل تھے یا نہیں۔

یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 85 فیصد خواتین، بچے اور بچیاں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ گھر سے باہر نہ نکل کر محفوظ رہنے کی دلیل کس حد تک پراثر ہو گی۔ اس کے علاوہ ان خبروں میں 11 فیصد بچیاں مذہبی اساتذہ کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنیں، بچوں (مفتی عزیز الرحمن جیسے کیسز جہاں بالغ بھی محفوظ نہیں، کو چھوڑ کر بھی) کے لیے یہ تعداد نجانے کتنی ہو گی۔

یہاں اس مختصر ڈیٹا کو ایک ہفتے (اور ایک ایڈیشن) کا فرض کر کے یہ حساب لگایا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ صرف ایک دن کا ہو کیونکہ یہ روزنامہ ہے۔ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ صورتحال کتنی بھیانک ہے۔ اور اس پہلے کہ کوئی یہ جواز دے کہ یہ تو جنگ اخبار ہے جیسے ایک خاص پارٹی کے لوگ جنگ گروپ پر یقین نہیں کرتے تو آپ ایک ایک خبر کو سرچ کر لیں گوگل پر (جیسے میں نے کی) تو آپ دیکھیں گے کہ امت جیسے اخباروں سمیت سب اخباروں نے ان سب خبروں کو شائع کیا ہے۔ اگر آپ آزاد تجزیے اور مانیٹرنگ اداروں کے اعداد و شمار دیکھیں تو آپ کو مزید دھچکا لگے گا۔ یہ صرف ایک تخمینہ ہے۔

ایک بات اور اب یہاں وہ لوگ جو مغربی ممالک میں بھی ہوتا ہے کا راگ الاپیں، یاد رکھیں کہ وہاں رپورٹڈ کیسز کی شرح پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے، بعض جگہوں پر سو فیصد تک۔ اس وٹ اباوٹری سے آپ مسئلے سے تو نظر چرا لیں گے لیکن اس سب کا کیا کریں گے؟

کپڑوں اور موبائلوں کو ذمہ دار ٹھہرانا بند کریں اور صحیح معنوں میں ان مسائل کی وجوہات اور حل تلاش کریں جو آپ کے سامنے ہیں مگر آپ تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ بقول بہت سے لوگوں کے وہ ہماری ”اقدار“ کے خلاف ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ آپ کی ”اقدار“ کے ساتھ موافق ہے یا خواتین اور بچے بچیوں کی صحت اور جان کی آپ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں؟ یا اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب یہ آگ آپ کے اپنے گھر تک پہنچے گی؟ ذرا سوچیے کیونکہ سوچنا جرم نہیں ہے

ڈاکٹر عاکف خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عاکف خان

مصنف فزیکل سائینز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہونے کے ساتھ بلاگر، کالم نویس اور انسانی حقوق کےایکٹیوسٹ ہیں۔ ٹویٹر پر @akifzeb کے نام سے فالو کیے جا سکتے ہیں۔

akif-khan has 11 posts and counting.See all posts by akif-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments