تعلیم کی بڑھتی شرح اور بدتمیزی کا رجحان۔


‌تعلیم وہ درس ہے جو انسان کی زندگی اور عادات میں مثبت تبدیلی لائے۔ اسی تعلیم کو روشنی سے بھی مشابہت دی گئی ہے لیکن آج کل یہ بالکل الٹ ہے۔ جتنی ہمارے ملک میں تعلیم کی شرح بڑھ رہی اتنا ہی تہذیب و تمدن کا فقدان ہے۔ وہ شخص جو زیادہ تعلیم یافتہ ہے وہ سب سے زیادہ آداب سے ناواقف اور علم کی روشنی سے دور ہے۔ جو انسان تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہوتا ہے اور وہ صحیح معنوں میں تعلیم اور استاد کی اہمیت سے واقف ہو پھر وہ کبھی بھی نہ تو کبھی استاد کی بے حرمتی کرتا ہے اور نہ ہی ان کے سامنے اونچی آواز میں بات کرتا ہے۔ ہمارا ملک جو اس دین اسلام کے نام پر بنا تھا جس نے اساتذہ کو بہت عزت دی اور انہیں اعلیٰ مقام سے نوازا۔

‌ہمارے ملک میں دو طرح کا تعلیمی نصاب پڑھایا جاتا ہے ایک وہ جو سرکاری اداروں میں غریب ماں باپ کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور دوسرا وہ جو پرائیویٹ اداروں میں فرزند و دوختر صاحب مال کو پڑھایا جاتا ہے۔ ان دونوں نصاب تعلیم میں اتنا فرق تعلیم کا نہیں ہوتا جتنا ادب و آداب کا ہوتا ہے۔ جو بچے ان سرکاری اداروں سے پاس ہوتے ہے ان کی زیادہ تر شرح با ادب اور خوش اسلوب ہوتا ہو اور وہ استاد کا مقام اور قدر پہچانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ وہی قوم کا مفکر اور سنوارنے والا ہے جس نے مجھے اس قوم کے ایک مفید اینٹ کے حیثیت سے نوازا۔

دوسرے طرف وہ بچے جو پرائیویٹ اداروں سے گریجویٹ ہوتے ہیں ان میں سے اکثر شرح کو کتابی علم اس قدر یاد ہوتا ہے کہ ہر ٹیسٹ اور ہر مقابلے کے امتحان میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ دے اور اتنے کھلے ذہن کے مالک ہوتے ہیں کہ ہر موضوع کو ہر طرف سے پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہی بچے نہ ہی اساتذہ کے اعلی مقام سے واقف ہوتے اور نہ ہی معاشرے کے کسی دوسرے فرد سے ہم کلام ہونے کا گر جانتے ہیں۔

‌ میں ان اداروں سے نکلے تمام بچوں کی بات نہیں کر رہا اور نہ سب کی تربیت پر بات کر رہا ہوں بلکہ جو ان اداروں میں اور روزمرہ زندگی میں دیکھا ان پر قلم کشائی کرنا اور معاشرے کو سنوارنے میں اپنا حصہ ڈالنا فرض سمجھتا ہوں۔ ان طلباء و طالبات کے سوچنے کا معیار کچھ اس قدر ہوتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ جس استاد سے یہ شرافت اور تہذیب کے دائرے میں گفتگو کرتے ہیں وہ انہیں کمتر سمجھتے ہیں اور بیجا سزا دیتے ہیں اور جن اساتذہ کے ساتھ یہ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ وہ اساتذہ ان سے ڈرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن اس میں زیادہ تر اثر استاد کے رویے کا بھی ہوتا ہے۔

‌جو اساتذہ سخت مزاج ہوتے ہیں اور ہر طالب علم کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرتے ہیں ؛ کلاس میں صرف کتابی اور علمی باتیں کرتا ہے اور بچوں کو معاشرے میں رہنے کے وصول سکھاتا ہے پھر وہی بد مزاج بچے بھی ان کی عزت کرتے ہیں البتہ یہ لازم و ملزوم ہے کہ اس استاد کی غیر موجودگی میں ان کا نقل اتارتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جو استاد نرم مزاج ہوتا ہے اور پڑھانے کا انداز بھی کچھ یوں ہو کہ طالب علموں کو سمجھانے میں ناکام ہو اور جو اپنا کلاس وقت پر نہ لیتا ہو پھر جب وہ استاد طالب علموں کو ڈانٹتا ہے تو وہ ان کو اونچی آواز میں جواب دینا شروع کر دیتے ہیں جس پر وہ رحیم استاد انہیں جواب دینے سے قاصر ہوتا ہے اور یہاں سے بچوں کی ذہنیت کا پیمانہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے استاد کو ڈرا دیا اور پھر معاشرے کے ہر فرد چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ہر کسی کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتا ہے۔

‌اج کل طالب علموں کا یہ رویہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک عام انپڑھ ڈرائیور بھی ان کی تعلیم پر انگلی اٹھاتا ہے اور شکر ادا کرتا ہے کہ وہ اس قدر تعلیم یافتہ نہیں کہ معاشرے میں بڑے چھوٹے کا تمیز بھول جائے۔ ان کی یہ سوچ ایک لحاظ سے ٹھیک بھی ہوتی کیونکہ جو رویہ ان تعلیم یافتہ انپڑھ بچوں کا ان ڈرائیوروں اور نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ان کا ہوتا یہ کہنا ان کا غلط نہیں۔ وہ ان لوگوں سے اس انداز میں ہم کلام ہوتے ہیں جیسے نعوذ باللہ یہ ان لوگوں کے خدا ہیں۔ جب اپنے فائدے کی بھی کوئی بات پوچھنی ہو تب بھی اس قدر پوچھتے ہیں جیسے ان پر احسان کر رہے ہو اور پھر جب وہ مطلوبہ معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو ان شاہ مزاجوں کا غصہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

‌اگر یہ رویہ اس طرح چلتا رہا تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے آئندہ نسلوں کی تربیت جو صدیوں سے احسن طریقے سے ہو رہی ہے خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ جو ہمیں ہمیشہ بڑوں کی عزت اور احترام کرنے کا آئینہ دکھاتا ہے اور ان کے ساتھ مکالمہ کرنے کے آداب سکھاتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اس تہذیب کو جاری رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور نئے آنے والے نسلوں کو یہ پیغام دے کہ معاشرے کا ہر بڑا چاہے وہ استاد ہو یا ڈرائیور، چوکیدار ہو یا نان بائی سب سے نہایت با ادب اور احسن طریقے سے پیش آئیں تاکہ انہیں تعلیم یافتہ اور انپڑھ انسان میں فرق واضح ہو اور انہیں ان کا درجہ بڑھا لگنے لگے۔ ہمیں ان طلبہ کے لئے اساتذہ اور بڑھوں کی احترام جیسے موضوعات پر سیمینار منعقد کرنے چاہئیں اور ان کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرے کہ استاد کی عزت ہی انسان کامیاب ہوتا ہے اور اسی کی کرنے سے ہی زندگی میں انسان کو عزت ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments