طالبان کا افغانستان ( آخری قسط)


طالبان کے مسائل: ہمارے ہاں ایک ایسا جہادی گروپ موجود ہے جو طالبان کی افغانستان میں قبضے کو نصر من اللہ و فتح قریب اور امریکہ کی شکست سے تعبیر کر رہا ہے اور جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ بیس سال میں طالبان کابل کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے تھے اور امریکہ اپنے مالی بحران میں شدید پھنسا ہوا تھا اس مسئلے سے کسی حد تک نکلنے کے لئے امریکہ نے فوجی انخلاء کا فیصلہ کیا اور ایک سال سے بھی زائد طویل مذاکرات جو طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہوئے اس میں طالبان نے امریکہ کو افغانستان سے فوجی انخلاء پر مکمل سیکیورٹی کی ضمانت دی اور یہ بھی یقین دہانی حاصل کی گئی کہ آئندہ ان کے مفادات امریکی مفادات سے نہیں ٹکرائیں گی اور ان کی حکومت پوری دنیا کے لیے ایک قابل قبول حکومت ہوگی۔

اس سلسلے میں انہوں نے خواتین کی تعلیم اور ان کی نوکریوں کے حق میں بیانات بھی دیے اور اپنے طالبان ساتھیوں کو مطمئن کرنے کے لئے شرعی سزاؤں کا اعلان بھی کیا گیا۔ بیرونی مفادات کی اس حد تک یقین دہانی حاصل کی گئی کہ وہ طالبان جنہوں نے پہلے دنیا کے سب سے بڑے مہاتما بدھ کے مجسمے کو جو بامیان میں تھا پوری دنیا کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے ڈائنامائیٹ کر دیا تھا لیکن اب وہ ملکہ ایلزبتھ کے مجسمے کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے کی بھی ضمانت دی۔

تو جناب یہ ہے وہ نصر من اللہ و فتح قریب اور غازی یہ تیرے پراسرار بندے کی حقیقی تعبیر۔ اس میں اگر کسی کو شکست ہوئی ہے تو وہ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت ہے جو ایک پل بھی اپنے ناخداؤں کے بغیر کھڑی نہیں رہ سکی اور اشرف غنی کو جس کے بارے میں افغان قوم پرستوں کا بیان تھا کہ بہت ہی دلیر شخص ہے اس کو ملک سے باہر بھاگنا پڑا لیکن حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ ملک کے اندر ہی موجود رہے اور ان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ یہ بھی ضمانت ہی تھی جو طالبان نے دی تھی۔

اس کے علاوہ طالبان نے اب تک صرف بندوق ہی چلائی ہے ایک مہذب ملک کیسے چلایا جاتا ہے اس سے یہ قطعی نا اشنا ہیں۔ اپنے پہلے دور میں بھی یہ صرف امریکہ دشمنی میں ہی زندہ رہے لیکن اب یہ ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے معیشت، بین الاقوامی سیاست اور ملک کے اندرونی مسائل کو حل کرنا ہے جس پر انہوں نے کبھی کام ہی نہیں کیا اس لیے بھی وہ شدید بحران کا شکار ہیں اور وہ حکومت جو لوگوں کو یہ کہہ کر آئی تھی کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو اللہ کی رحمتوں کی ان پر بارش ہو گی وہ اب اسی امریکہ اور یورپ سے مالی تعاون کی اپیل کر رہے ہیں اور پچھلی حکومت کا پیسہ جو غیر ملکی بینکوں میں ہے اس کو واپس لینے کے لئے کبھی اپیل اور کبھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ امریکہ نے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس سے افغانستان کی مالی مدد ہو سکے لیکن کب تک یہ ملک فنڈ اور خیرات پر چلتا رہے گا۔

لیکن بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی ایک تو خود طالبان صرف ان کا نام نہیں ہے جو مسند اقتدار میں بیٹھے ہیں بلکہ ایک بہت بڑی تعداد جو طالبان تو ہیں مگر اقتدار سے دور ہیں وہ ان سمجھوتوں کو بالکل تسلیم نہیں کر رہے ہیں اور وہ پچھلے دور حکومت کی پالیسیوں کو ہی اسلام سے سمجھتے ہیں ان سب کو ہم سخت گیر طالبان اور حکومت میں شامل افراد کو ہم فی الحال معتدل طالبان کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں داعش کی موجودگی بھی ہے اور انہوں نے ہی امریکی فوجی انخلاء کے وقت کابل ائر پورٹ پر راکٹوں سے حملہ کیا تھا جس کی پیشگی اطلاع امریکہ کو موصول ہو گئی تھی اور وہ تمام محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے تھے جبکہ مارے بیچارے افغان ہی گئے تھے۔

اس کے علاوہ افغانستان میں اہل تشیع اور ہزارہ کمیونٹی والوں پر حملے ہو رہے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں پر بم دھماکے ہو رہے ہیں جس سے بہت بڑی تعداد میں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور ان سب کی ذمہ داری داعش نے قبول بھی کی ہے۔ داعش اس وقت طالبانی حکومت کے لئے درد سر بنتا چلا جا رہا ہے۔ ایک اور بات یہ کہ حکومت میں آنے کے بعد طالبان نے جب جیلوں سے اپنے قیدیوں کو رہا کیا تو داعش کے قیدیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا اور ان کو قتل بھی کیا کیونکہ داعش اور طالبان کے آپس میں سخت اختلافات ہیں اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آنے والے وقت میں سخت گیر طالبان، داعش اور حکومتی یا معتدل طالبان کی آپس میں خانہ جنگی دیکھ سکتے ہیں جو اس تمام خطے کو پھر سے غیر یقینی کیفیت سے دوچار کر سکتی ہے۔

بین الاقوامی سیاست پر اثرات: جب افغانستان میں سیاسی حکومت آئی تو وہ پاکستان کی طالبان پالیسی سے خاصی متنفر تھی اسی طرح اشرف غنی کی حکومت بھی پاکستان سے خاصی بدظن تھی اس تمام صورتحال کو بھارتی حکومت نے بہت اچھے طریقے سے استعمال کیا اور اس نے اپنے دوستانہ تعلقات افغانستان سے استوار کیے اور وہاں پر ہونے والے ترقیاتی پروگراموں میں بہت بڑے بڑے ٹھیکے لئے یہ بھارت کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری تھی جو اس موجودہ طالبان کی حکومت میں آنے سے ڈوب گئی ہے اور اس سے بھارت اور بھارتی حکومت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے

پاکستان جو روایتی طور پر طالبان کا بہی خیر خواہ تصور ہوتا ہے اور خود پاکستان میں بھی طالبان کا اثر رسوخ موجود ہے جو تحریک طالبان پاکستان کے نام پر کام کر رہا ہے گو کہ یہ ایک غیر قانونی تنظیم ہے لیکن اس کی جڑیں تو بہرحال موجود ہیں جو افغانستان کی وجہ سے پاکستان میں تقویت پکڑ سکتی ہی جو آنے والے وقت میں پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے لیکن پاکستان نے بھی طالبان حکومت کو خیر مقدم کیا ہے بلکہ انٹیلی جنس کے اس وقت کے سربراہ نے وہاں کا دورہ کیا اور ان کی لیڈر شپ سے ملاقات بھی کی۔

ماضی میں پاکستان امریکہ کا اس خطے میں سب سے بڑا حلیف تھا اور اس کی بالادست قوتوں نے اس جنگ سے بڑے مالی فوائد بھی اٹھائے تھے گو کہ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت افغانستان کے عوام کے بعد پاکستان کی عوام نے ادا کی مالی، معاشی، سماجی، نفسیاتی طور پر پورا معاشرہ تلپٹ کا شکار ہو گیا۔ بم دھماکوں اور دیگر حملوں سے تقریباً 80,000 پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ جنگ پہلے تو اسلام کی جنگ تھی پھر یہ پاکستان کی سالمیت کی جنگ بنی لیکن اس نے پاکستانی معاشرے کے بنیادی بنت کو ہی تباہ کر کے رکھ دیا اور ایک ایسا رستا ہوا معاشرہ ہمارے سامنے آیا جو خود یہاں کے لوگوں کے لئے ہی بالکل اجنبی تھا اور پاکستانی نہ چاہتے ہوئے آج بھی اسی ماحول میں سسک رہے ہیں۔

پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے تحریک لبیک پاکستان نے اپنی تنظیم کو کافی مضبوط کیا ہے اور عوام میں اپنا اثر رسوخ کافی بڑھایا ہے۔ تحریک لبیک محض ایک مذہبی مسلح تنظیم ہی نہیں بلکہ اس نے حالیہ انتخابات میں حصہ بھی لیا ہے اور پاکستان کی چوتھے نمبر کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مذہبی نظریات کے طور پر تحریک لبیک اور طالبان ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ ایک دوسرے کو کافر کی حد تک گردانتے ہیں۔

اگر پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کوئی کارروائی کرتی ہی یا اپنے پیر مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ لبیک والے بھی اسی سطح پر جا کر جوابی کارروائی کر سکتے ہیں جس سے ملک میں خانہ جنگی والی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ جب روس افغانستان میں آیا تھا تو پاکستانی حکومت امریکی مفادات کے لئے فرنٹ سٹیٹ بنی ہوئی تھی اور خود پاکستان میں مذہبیت کو کافی پروان چڑھایا گیا تھا اب تقریباً چالیس سال کی اس آبیاری سے پاکستان کی کئی نسلیں اس سے متاثر ہوئی ہیں اور یہ ایک تناور درخت کی حیثیت حاصل کر چکا ہے جو آنے والے وقت میں پاکستان اور یہاں کی عوام کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

روس کے علاقے سے جانے کے بعد اور امریکہ کے مکمل کنٹرول لینے کے بعد پاکستان کی وہ ماضی والی اہمیت بالکل نہیں رہی تھی اور اس دوران چین نے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے اور اپنی مصنوعات کی قیمت کم کرنے کے ساتھ جلد سپلائی کے لیے ون بیلٹ ون روڈ جیسے میگا پراجیکٹ کی داغ بیل ڈالی جس کا بہت بڑا کام پاکستان میں ہونا تھا اور اس سے گوادر کی بندرگاہ نے بھی فعال ہونا تھا۔ اب پاکستان کی اشرافیہ اور حکمران طبقے کو امریکہ کے بعد چین کے صورت میں ایک سونے کی چڑیا نظر آئی تو اب ان کی بھرپور نظریں چین کی جانب اٹھیں۔

چین نے بھی طالبان کی اس حکومت کی تائید کی کیونکہ اس کے جو مفادات اس خطے میں ہیں وہ خطرے میں پڑ سکتے تھے دوسری جانب امریکہ کو بھی چین کے اس خطے میں جماتے قدم بالکل نہیں بھاتے ہیں اور اگر یہ خطہ کسی بھی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو یہ سی پیک پراجیکٹ خطرے میں پڑ سکتا ہے جبکہ چین اس پر پہلے ہی اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔

ایران ایک ایسا ملک ہے جس نے سیاسی طور پر امریکہ کو مشرق وسطی میں کافی گزند پہنچائی ہے۔ اس کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں نے مشرق وسطی میں امریکی مفادات کو کھل کر کام نہیں کرنے دیا گو کہ اس طرح کی پراکسی وار سے نقصان اور تباہی صرف وہاں کے عوام ہی کی ہوتی ہے اور وہ ہو بھی رہی ہے لیکن ملکوں کے سیاسی مفادات ہمیشہ عوام کے مفادات سے قطعی مختلف اور ان سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اس طالبانی حکومت سے ایک تو شیعہ کمیونٹی خود افغانستان میں شدید خطرے میں ہے جس سے ان کی ایران کی طرف ہجرت بڑھ سکتی ہے جبکہ موجودہ مالی اور معاشی طور پر باقی ممالک کی طرح ایران بھی اس میں بری طرح پھنسا ہوا ہے اور ماضی میں ایرانی عوام مہنگائی کے خلاف خود ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاجات کر چکے ہیں اس لئے ایران کا اتنے بڑے پیمانے پر مہاجرین کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا جبکہ داعش جو کہ اہل تشیع کے سخت خلاف ہے ان کی افغانستان میں موجودگی اور اگر آنے والی وقت میں اہل تشیع پر طالبان یا داعش کا دباؤ بڑھتا ہے تو وہ ایران کے لئے ایک بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے اور اس سے ایران کی توجہ مشرق وسطی سے ہٹ کر اپنے ملک کی سالمیت پر مبذول ہو جائے گی جس کا فائدہ امریکہ اٹھا سکتا ہے۔

روس بھی ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے طالبان حکومت کے لئے اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ روس سوویت یونین کے انہدام کے بعد اور خصوصاً جب سے امریکہ معاشی بدحالی کا شکار ہوا ہے ایک نئے سامراجی ملک کے طور پر اپنے کل پرزے نکال رہا ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ وہ ممالک جہاں پر یا تو آمریت نافذ ہے یا جہاں پر فاشسٹ اور ایسی جمہوری حکومتیں ہیں جو جمہوری روایات کے تقدس کا خیال نہیں رکھتیں ہیں ان تمام ممالک کے ساتھ روس نے اپنے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔

شام میں بشر الاسد کی حکومت کے ساتھ مل کر جو شام کا اور شامی عوام کا حال کیا ہے وہ تو ہم سب کے سامنے ہے۔ روس اپنے آپ کو نئے سامراج کو طور پر سامنے لانے کے لئے ہر اس جگہ پر موجود ہوتا ہے جہاں وہ امریکہ کو گزند پہنچا سکے۔ اس لئے اس کی یقینی طور پر یہ کوشش ہو گی کہ وہ ایران، چین، پاکستان اور طالبان کی مدد سے ایسا دھڑا تشکیل دے جو یہاں پر امریکہ کے لئے مشکلات کھڑی کر سکے۔

جب سے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی امریکی اور نیٹو افواج کی کارروائیاں اور پراکسی جنگیں شروع ہوئی ہیں وہاں کی عوام برباد ہوئی ہے جس سے دنیا بھر میں مہاجرین کی تعداد بڑھی ہے اس سب میں لوگوں کی نظریں زیادہ تر یورپ اور امریکہ پر ہوتی ہیں کیونکہ ان کے اپنے ملک تو محفوظ ہیں بے شک کہ ان کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک غیر محفوظ ہیں۔ ابتداء میں یورپی عوام نے ان لوگوں کا انسانی بنیادوں پر خیر مقدم کیا تھا بلکہ پانی اور خوراک کے ساتھ اپنے ملک کی سرحدوں پر ان کا خیر مقدم بھی کیا تھا پھر حکومتوں نے اپنے ممالک کی سرحدوں پر سختی کیا اور سرحدوں کو ان مہاجرین پر بند کر دیا۔

اس کے لئے ان ممالک میں بہت پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ان کے آ جانے سے ہمارے ممالک کو معاشی اور ثقافتی طور پر بہت خطرہ ہے۔ یورپ بھی باقی دنیا کی طرح 2008 ء سے ہی سرمایہ داری کے بحران میں پھنسا ہوا تھا اور یہ ممالک شدید قرضوں کی لپیٹ میں تھے اور اب بھی ہیں۔ اس معاشی بحران کو ان ممالک کی حکومتوں نے اور وہاں پر موجود انتہا پسند سیاسی لوگوں نے مہاجرین کی آمد سے نتھی کر دیا کہ یہ تباہی صرف ان لوگوں کی آمد سے ہی ہے۔

اس طرح بالخصوص مشرقی یورپ کے ممالک جو یورپی یونین کے فیصلوں کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے اور ان تمام ممالک میں قوم پرستی کی ہوا پہلے ہی چل رہی تھی وہاں پر جب مہاجرین کا دباؤ بڑھا تو ان ممالک میں دائیں بازو کے نظریات کو بہت ہوا ملی اور وہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنا شروع ہو گئیں جس سے مہاجرین اور بھی برے حالات میں چلے گئے۔ ایسا صرف مشرقی یورپ میں ہی نہیں بلکہ مغربی یورپ میں بھی ہوا جس میں یونان اور بالٹک ریاستوں کے علاوہ فرانس اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

ان ممالک میں حکومتوں نے اپنی نا اہلی اور سرمایہ داریت کو بچانے کے لئے اس ناکامی کی تمام تر ذمہ داری مہاجرین پر ڈال دی ہے کہ صرف ان کی آمد کی وجہ سے ممالک کساد بازاری کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی یورپ میں مذہبی اور قومی انتہا پسندی تقویت پکڑ رہی ہے اور اب جب ہزاروں اور لاکھوں افغانوں کی ہجرت یورپ کی طرف ہو رہی ہے جس کی تعداد آنے والے دنوں میں مزید بڑھ بھی سکتی ہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments