شکریہ مریم نواز


اپنے کسی کالم میں، میں نے لکھا تھا کہ پاکستانی معاشرہ ابھی زیر تعمیر ہے جبکہ سچ یہی ہے کہ پاکستان نامی ریاست میں معاشرے کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ایک ہجوم ہے جو انسانوں پر نہیں بلکہ مرد اور عورت پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی اکثریت اس بات کی خواہش مند ہے کہ عورت خواہ اپنی ہو یا دوسری ان کی مرضی کے مطابق سوچے اور پہنے۔ ہمارے ہاں ایک اور سوچ بھی ہے جس نے سماج کی بدصورتی میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے کہ ہر وہ عورت بدکردار ہے، بری ہے جو ایک مرد کے مقابلے میں دوسرے کو ترجیح دے۔
مگر کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک خاتون اپنے بیٹے کی شادی میں اپنی عمر، پہناوے اور وضع قطع کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنائی جا رہی ہے جس نے سماج کے پڑھے لکھے لوگوں کے گھناؤنے چہرے عریاں کر دئیے ہیں۔ جی ہاں خواتین کی عمر اور خوش لباسی کی اس بحث نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی اپنے بیٹے جنید صفدر کی شادی کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔مجھے کئی افراد کو اپنی سوشل میڈیا والز پر بلاک کرنا پڑا، کچھ کو انفرینڈ کرنا پڑا اور مجھے ایک بار پھر اس بات کو تسلیم کرنا پڑا کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت پر مسلمان کا صرف لیبل ہی لگا ہوا ہے جبکہ ان کے اندر صدیوں پرانا ابوجہل سانس لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ مریم نواز کی جانب سے اس تقریب کو نجی معاملہ قرار دینے کے باوجود سوشل میڈیا پر پہلے ان کے گانے اور اب ان کے پہناوے زیر بحث ہیں۔ اس حوالے سے میں نے اپنی وال پر پوسٹ لگائی تھی کہ آخر کسی کو اس حوالے سے تکلیف کیا ہے اور یہ لکھا تھا کہ
” مشرق کی ایک عام روایت ہے کہ سر کا سائیں ساتھ ہو تو عورت خوب سجتی سنورتی ہے۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ ہر مرد ہی سڑو ہو اور اپنی نوبیاہتا بیوی کو بائیک پر بٹھا کر بولے ۔۔۔۔
Take the distance
اور وہ عورت اپنے شوہر کی شکل دیکھے کہ سیکس کے دوران تو Take the Distance نہیں بولتا۔
جنید کی شادی پر مریم کی تیاری دیکھ کر وہ لونڈے لپاڑے بھی بول رہے جو مال دار اور تنہا خواتین کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ خواتین بھی جو خود سفید سوٹ کے نیچے کالے رنگ کی بکنی پہنے عوامی جگہوں پر گھوم پھر رہی ہوتی ہیں اور اگر کوئی انہیں دیکھ لے تو بے شرم کہہ کر اپنی شرافت کی دلیل دیتی پھرتی ہیں۔”
مریم کی شادی کم عمری میں ہوئی اور اس نے اپنے اوپر توجہ دی، بندے کے پاس پیسہ ہو تو غم و الم کی مدت بہت مختصر ہوتی ہے یہ ہم مڈل کلاس کا المیہ ہے جو غموں کو پالتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کرنے کے لیے کچھ اور جو نہیں ہوتا تو ہمیں جو کام آسان لگتا ہے ہم وہی کرتے ہیں، غم نگلتے ہیں اور وہی اگلتے ہیں۔
کچھ پوسٹ، کچھ جملے انتہائی تکلیف دہ تھے جیسے بھلا یہ عمر ہے مریم کی ایسے سجنے سنورنے کی؟ میرے جیسے لوگوں کو مریم کا انداز بہت اچھا لگا، جو زندگی گزارنے نہیں بلکہ زندگی جینے کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ بی بی سی نے اس موضوع پر اپنی ایک رپورٹ میں بڑی شاندار بات کی کہ تنقید اور تحسین کے اس دائرے میں سیاسی وفاداریوں کا کتنا کردار تھا، اس پر بحث مقصود نہیں۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین سے ایک مخصوص طرز عمل کی توقعات کیوں ہیں؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ انفرادی طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟ جس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔
جیسا کہ اوپر کہا کہ مریم نواز کی ان تصاویر پر ہونے والی تنقید نے کئی جگہ نیا رخ اختیار کر لیا اور پھر ذہنی مریضوں نے چالیس سال اور اس سے زیادہ کی خواتین پر طنز و مزاح کے بہانے پھبتیاں کسنی شروع کر دیں ۔ کسی نے چالیس سال کی کنواری بچیاں لکھ کر طنز کیا تو وہاں پر ایک گھٹیا ترین کمنٹ نے میری ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی، وہ ایک مرد کا کمنٹ نہی تھا بلکہ ایک مخصوص سوچ کا اظہار تھا، لکھا تھا کہ “دیکھ بھائی، جو چالیس کی ہو گی اور کچی کلی ہوگی تو اس میں دو باتیں ہونگی، ایک یا تو وہ کچی کلی نہیں، اویں گلاں بنیاں نیں۔ دوسرے اس میں کوئی شدید فنی خرابی ہے جس کی وجہ سے اس کلی کو کسی نے ابھی توڑا نہیں، ہر دو صورت میں معاملہ ٹھیک نہیں۔”
میں ایسی کئی لڑکیوں کو جانتی ہوں جو چالیس کی ہیں یا اس سے اوپر، الحمد للہ ان کے دامن صاف ہیں ۔ اپنا کماتی ہیں، گھر والوں کو سپورٹ کرتی ہیں، شادی نہ ہونے کی وجہ سانولے رنگ یا جہیز کا نہ ہونا ہے۔ نہ ان کی باتیں بنی ہوئی ہیں اور نہ ہی کوئی فنی خرابی ہے۔ اللہ کا حکم نہیں آیا، اور ان میں کسی قسم کے نفسیاتی مسائل بھی نہیں ہیں۔ ہنس مکھ اور خوش مزاج ہیں، بنتی سنورتی ہیں، اپنی زندگی جی رہی ہیں، نہ خدا سے کوئی شکوہ، نہ گھر والوں سے۔ سماج کو وہ جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتیں کہ انہوں نے صرف باتیں کرنی ہیں اس لیے انہیں اللہ کے حکم پر راضی رہنا ہے اور جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور اللہ ہمیشہ اچھے کے لیے کرتا ہے۔
مگر یہ ہمارا سماجی المیہ ہے کہ چالیس سال اور اس سے اوپر کی عورت چاہیے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ سجنے سنورنے کا کوئی حق نہیں رکھتی ۔ دونوں صورتوں میں اسے یہ سننا پڑتا ہے کہ کس کے لیے یہ تیاریاں ہو رہی ہیں، یعنی یہ سوچ بہت زیادہ مستحکم ہے کہ عورت صرف مرد کے لیے سجتی سنورتی ہے،اس کا اپنی زندگی پر کوئی حق نہیں ہے بہت راسخ ہے، تاہم چالیس سال یا اس سے بڑی عمر کی خاتون ہتھے چڑھ جائے تو چھوڑتا بھی کوئی نہیں، تنہائی کا ساتھی بننے کے امیدوار بڑے آ جاتے ہیں، ان میں اکثریت نوجوانوں کی یا پھر بابوں کی ہوتی ہے۔ یا پھر عورت نانی دادی ہے تو سمجھ لیں کہ ہاتھ میں تسبیح اور ہلکے رنگ کا لباس ہی اس پر جچتا ہے، اس کی عمر کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا بس رتبہ دیکھتے ہیں۔
پاکستان سماج سے عورتوں کے حوالے سے اس نوعیت کی مخصوص دقیانوسی تصورات اور ذہینت کو الگ کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ دوسروں کی بہن بیٹیوں پر بات کرنا شاید انہیں بہت آسان لگتا ہے، خدا تو شاید انہیں اس وقت بھی یاد نہیں آتا ہے جب اپنی بہن بیٹی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے،انہیں دیکھ کر خوف تو آتا ہے، ترس نہیں۔ مذہب کی من چاہی تشریح نے پاکستان سماج میں مثبت رویوں کو نگل لیا ہے اور جو پیچھے بچا ہے وہ صرف وحشت ہے اور وحشیوں سے انسانیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments