آخری صفحہ


لفظ ”آخری“ ابدی گھر سے دربدر کر دیے جانے والے خاکی پتلوں کی چار روزہ حیات میں وہ کردار نبھایا ہے جو ان کے دلوں کی گہرائی میں پنہاں خواہشات کو سر بازار لاکر پارہ پارہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ زندگی کے کینوس کو سمیٹ کر ایک لفظ میں بیان کرنے کی سعی لفظ آخری پر اختتام ہوتی ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ، ہر پہلو اور ہر سانس اسی لفظ کا منتظر اور متلاشی ہوتا ہے۔ ازل سے لے کر اب تک انسان کہانی، کتاب، نظریہ، فلسفہ اور فلم بلکہ زندگی کے ہر پہلو کے ساتھ جڑے ہوئے لمحات میں میں ہمیشہ لفظ آخری کا ہی خواہاں رہا۔ اور یہ سلسلہ ابد تک یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔

کتاب کا آخری صفحہ، ڈرامہ کی آخری قسط اور فلم کے آخری چند منٹ ہی وہ لمحات ہیں جن میں یقینی فیصلہ ہوتا ہے کہ کل ملا کر فلم، ڈرامہ اور کتاب اچھی تھی یا کے انسان کے بنائے ہوئے اس معیار سے تعلق رکھتی تھی جسے عرف عام میں برا تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ قانون فطرت ہے، انت بھلا سو بھلا۔

اگر بات کی جائے ان انسانی احساسات، نظریات، فلسفیات اور تجربات کی جن کو قلم کی نوک سے گزار کر سپاٹ صفحات پر رقم کرتے ہوئے کتاب کی شکل دی جاتی ہے تو صفحات کی گہرائیوں میں کھو کر ہمیشہ اس صفحہ کی تلاش کی جاتی ہے جو سب سے آخری اور حتمی ہوتا ہے۔ کیونکہ آخری صفحہ ہی وہ صفحہ ہوتا ہے جو یہ راز فاش کرنے کا گر جانتا ہے کہ انجام کیا ہوا۔

زندگی بھی ایک کتاب کی مانند ہے اور اس بے عنوان کتاب کا آغاز اس چیخ سے ہوتا ہے جب بچہ ماں کے بہشت نما شکم سے ظالم دنیا میں قدم رکھتے ہوئے عالم خاکی کی بربریت پر نوحہ خواں ہوتا ہے۔ ہر لمحہ ایک لفظ، ہر دن ایک صفحہ، ہر ماہ ایک باب اور ہر سال ایک حصہ کا نمائندہ بن کر زندگی کی کتاب کے سفید صفحات کو کالا کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ ماں باپ، رشتہ دار، دوست احباب اور یار بیلی اس کتاب کے وہ کردار ہوتے ہیں جن سے کتاب میں رحمت، اداسی، حقارت، نفرت، حسد، خوشی، غمی اور محبت کے عناصر کا اضافہ ہوتا ہے۔

ہر کردار اپنی نوعیت کا منفرد اور اعلی کردار بننے اور اپنے الگ معیار کی مہر کتاب میں ثبت کرنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ اوپر بیان کردہ کرداروں کے علاوہ بھی کئی کردار ہوتے ہیں جن کا کوئی نام نہ حلیہ اور نہ ہی کوئی نشاں مگر وہ موجود ہوتے ہیں۔ کبھی خوشگوار آغاز بن کر زندگی کے پہلے صفحے کی زینت بنتے ہیں تو کبھی پراسراریت کا لبادہ اوڑھ کر آخری صفحہ میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔

زندگی کی ہر کتاب منفرد اسلوب، الگ طرز بیان اور جدا جدا کرداروں کا اپنے اندر سمیٹے ہوئے عجب لمحات کا مجموعہ ہوتی ہے مگر گمنام اور بے نشان کردار ہر کتاب کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ کردار انسان کو کبھی خوابیدہ دنیا میں لے جاکر پرستان کی سیر کرواتے ہیں تو کبھی حقیقی دنیا کے مسخرے بازاروں میں سر عام نیلام کر کے بے بسی کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ان کرداروں کا زندگی کی نایاب کتاب میں آنا اور کتاب سے گم ہو جانا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔

جب یہ کردار پراسراریت کا لبادہ اوڑھ کر فانی انسان کی زندگی کی کتاب کے پہلے صفحے میں قدم رکھتے ہیں تو انسان کو دنیا کی ہر چیز خوشی میں جھومتی اور وقت رقص کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ انسان کے نزدیک فانی زندگی کے فانی ہونے کا احساس ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو ابدیت کا شاہکار تصور کرتے ہوئے کرداروں کی گہرائی کے اندر چھپے ہوئے اندھیرے سے بے خبر ان کی معطر گفتار میں کھو کر رہ جاتا ہے۔

مگر جب یہ کردار آخری صفحہ میں اپنی پراسراریت کا لبادہ چاک کر کے انسان کے روبرو ہو کر اپنے اصلی اور حقیقی روپ کی نمائی کرتے ہیں تو انسان پر اپنے فانی ہونے کا ایسا راز عیاں ہوتا ہے ہے کہ وہ پارہ پارہ ہو کر اپنی زندگی کی کتاب کے آخری صفحہ میں اپنے آپ کو دفن کرتے ہوئے ابدی نیند سو جاتا ہے۔ ابدی نیند!

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 67 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments