اولگ پینکوسکی: دنیا کو ایٹمی جنگ سے ’بچانے والا جاسوس‘ جس کی شخصیت ہمیشہ متنازع رہی

اینجل برموڈیز - بی بی سی نیوز ورلڈ


پینکوسکی
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اولگ پینکوسکی کو ’ہیرو‘ کا کوڈ نام دے رکھا تھا اور شاید وہ اس سے کچھ کم بھی نہیں تھے۔ سوویت یونین کی مسلح افواج کی انٹیلیجنس سروس (جی آر یو) کے یہ کرنل سرد جنگ کے دوران کمیونسٹ سپر پاور کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں معلومات کا ایک انمول ذریعہ بن گئے تھے۔

کچھ لوگ انھیں مغرب کا اب تک کا سب سے قیمتی ’ڈبل ایجنٹ‘ سمجھتے ہیں۔

وہ ایک ایسے جاسوس تھے، جنھیں سوویت یونین کے بہت سے بہترین خفیہ رازوں تک آزادانہ رسائی حاصل تھی اور اس کی بدولت وہ 60 سال قبل واشنگٹن کو کیوبا میں سوویت میزائل بحران کو سنبھالنے اور اس کا پرامن حل تلاش کرنے میں کلیدی ڈیٹا فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔

اس سوویت جاسوس پر کتاب ’ہیرو کوڈ نیم‘ کے مصنف جیرمی ڈنس کہتے ہیں کہ ’ان کے اقدامات کو بہادری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے بغیر شاید ہم آج زندہ نہ ہوتے۔ پینکوسکی کی فراہم کردہ خفیہ معلومات کے بغیر، میزائل بحران ایک جوہری جنگ کا باعث بن سکتا تھا۔‘

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی ایجنسی ایم آئی 6 کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے پینکوسکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انھیں روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی نے 22 اکتوبر 1962 کو گرفتار کرنے کے بعد غداری کا مقدمہ چلایا اور مئی 1963 میں سزائے موت سنا دی تھی۔

سرکاری بیان کے مطابق انھیں سزا کے چند دن بعد گولی مار دی گئی تھی حالانکہ ایسے دعوے بھی موجود ہیں کہ انھوں نے سوویت کیمپ میں قید کے دوران خودکشی کی تھی۔

ہیرو یا افسانہ

پینکووسکی کے ساتھ ساتھ ایک برطانوی تاجر گریول وائن پر بھی مقدمہ چلایا گیا، جو پینکوسکی اور مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر کام کرتے تھے، انھیں اس جرم کے لیے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جبکہ انھوں نے صرف 18 ماہ کی قید کاٹی جس کے بعد وہ لندن اور ماسکو کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے ایک معاہدے کے تحت رہا ہو گئے تھے۔

جب سوویت حکام نے دسمبر 1962 میں کرنل پینکوسکی کی گرفتاری اور بطور جاسوس ان کے کردار کے متعلق بتایا تھا تب سے اس شخص کے بارے میں مغرب میں بہت دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔

پینکوسکی

یہ کہانی کئی غیر افسانوی کتابوں کا موضوع رہی ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم کورئیر، جس میں بینیڈکٹ کمبر بیچ نے اداکاری کی ہے، پینکوسکی اور وائن کی کہانی بتاتی ہے البتہ اس فلم میں چند حقائق کے ساتھ ساتھ کچھ افسانوی باتوں کا بھی تڑکا لگا ہوا ہے۔

گذشتہ چھ دہائی میں، پینکوسکی نے بطور مغرب کے حامی جاسوس جو کردار ادا کیا، اس کے بارے میں اعداد و شمار، بیانات اور تشریحات سامنے آتی رہیں۔

کچھ لوگ سوویت میزائل بحران کے حل میں ان کے کردار کو کم گردانتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ انھیں کس حد تک ’دنیا کو بچانے والا جاسوس‘ سمجھا جا سکتا ہے؟

پینکوسکی کی شخصیت ہمیشہ متنازع رہی ہے۔ سی آئی اے کے سابق چیف مؤرخ بینجمن بی فشر کا سنہ 2021 میں شائع ہونے والا ایک مضمون جس کا عنوان ہے ’پینکوسکی، وہ جاسوس جس نے دنیا کو تباہ کرنے کی کوشش کی‘ میں یہ دلیل دی ہے کہ میزائل بحران کے حل کے لیے پینکوسکی کی فراہم کردہ معلومات کی افادیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

اور یہ کہ انھوں نے سوویت یونین کے خلاف پریوینٹو وار (دشمن کے جنگ چھیڑنے سے قبل حملہ کرنا) کی وکالت کرتے ہوئے مغرب کو ماسکو کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ ان کی گرفتاری کے بعد بھی انھوں نے امریکہ پر سوویت یونین کے جوہری حملے کے بارے میں جھوٹی تنبیہ بھیج کر ایٹمی جنگ چھیڑنے کی کوشش کی۔

لیکن اگرچہ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر ایک ہی وقت میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ پینکوسکی وہ جاسوس تھا جس نے دنیا کو بچایا اور ایسے بھی ہیں جن کا ماننا ہے کہ اس نے دنیا کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

پینکوسکی کو سی آئی اے کا دیا گیا خفیہ نام

16 اکتوبر 1962 کو جب امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے کیوبا میں سوویت ایٹمی میزائلوں کی موجودگی کی پہلی اطلاعات پر بات کرنے کے لیے اپنے قومی سلامتی کے مشیروں سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں پینکوسکی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ روسی جاسوس کا کردار یا فراہم کردہ معلومات اس سے متعلقہ نہیں تھیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ پینکوسکی اپنی خفیہ معلومات کی وجہ سے امریکہ کے لیے اس قدر اہم تھے کہ وہ اس کی ہر ممکن حفاظت کرنا چاہتے تھے، اس لیے امریکی حکومت یہ نہیں چاہتی تھی کہ ایسی اعلیٰ سطحی ملاقات میں بھی پینکوسکی کے متعلق کوئی جان سکے۔

اس لیے سی آئی اے نے انھیں ’آئرن بار‘ کا خفیہ نام دیا تھا۔

اس نام کو بھی محدود پیمانے پر امریکی انٹیلیجنس اداروں کے درمیان سوویت کرنل کی فراہم کردہ معلومات پہنچانے کے لیے بہت احتیاط سے استعمال کیا جاتا تھا اور امریکی حفیہ ایجنسیاں ان کی فراہم کردہ معلومات کو ایسے ظاہر کرتیں کہ یہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ہیں۔

سی آئی اے کے خلائی اور میزائل ڈویژن کے سابق سربراہ سڈنی گریبیل جو امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور ان کے مشیروں کو کیوبا میں نصب میزائلوں کے متعلق معلومات سمجھانے والے ماہرین میں سے ایک تھے، نے وضاحت کی ہے کہ پینکوسکی کے بارے میں صرف امریکی صدر، وزیر دفاع و ریاست کے علاوہ سی آئی اے کے مٹھی بھر اعلیٰ حکام کو ہی علم تھا۔

سنہ 1999 میں دیے گئے ایک انٹرویو جسے جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل سکیورٹی آرکائیو میں محفوظ کیا گیا ہے، گریبیل نے وضاحت کی کہ سی آئی اے نے سوویت ایس ایس-فور میزائلوں کے آپریٹنگ مینوئلز پینکوسکی کی بدولت حاصل کیے تھے، جو کہ ایک ایسی چیز تھی جو اس میزائل بحران کو روکنے میں بہت اہم ثابت ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان میزائلوں کی خصوصیات جاننا اتنا اہم نہیں تھا جتنا یہ جاننا کہ ان کو داغے جانے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا اور اس سوال کا جواب دینے کے لیے آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ میزائل زمین پر فوج کے ساتھ کیسے کام کرتے ہیں اور یہ معلومات ہمیں پینکوسکی نے فراہم کی تھی۔ جس نے ہمیں صدر کے پہلے سوال کا جواب دینے کے قابل بنایا تھا۔‘

جیسا کہ جیریمی ڈنس وضاحت کرتے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ سوویت یونین کو میزائل داغنے کے لیے تیاری کرنے میں بہت زیادہ وقت درکار ہو گا، امریکی صدر کینیڈی کو یہ موقع حاصل ہوا کہ ان کے پاس سویت یونین کے ساتھ بات چیت کرنے کی گنجائش ہے۔

ڈنس کہتے ہیں کہ ’پینکوسکی نے کھلے عام اور اکثر اس حقیقت کے بارے میں بات کی کہ سوویت یونین کے وزیراعظم نکیتا خروشیف سوویت میزائلوں کی تیاری کے بارے میں جھوٹ بول رہے تھے اور یہ کہ ان کے پاس بنیادی طور پر اس سے کم میزائل تھے، جن کا انھوں نے دعویٰ کیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ روسی جاسوس کی جانب سے فراہم کردہ میزائلوں کے مینوئل، تصاویر اور دیگر دستاویزات کے علاوہ اس نے اعلیٰ امریکی حکام کو یہ باور کروایا تھا کہ ان کی دفاعی طاقت سوویت یونین سے زیادہ ہے، جو ایک بہت بڑا فائدہ ثابت ہوا۔

کیونکہ اس سے امریکی صدر کینیڈی کو یہ علم ہو گیا کہ ان کے پاس سوویت یونین سے مذاکرات کرنے کا وقت ہے۔

خامیوں سے بھرپور شخص مگر بہترین جاسوس

بہت سے لوگ پینکوسکی کو مغرب کے لیے ایک بہترین جاسوس کے طور پر دیکھتے ہیں۔

پینکوسکی کو بہت قیمتی اور اہم ترین معلومات تک رسائی تھی اور سوویت یونین کی سٹیٹ کمیٹی برائے کوآرڈینیشن آف سائنٹیفک ریسرچ کے خارجہ سیکشن کے نائب سربراہ کے طور پر ان کا کام سرمایہ دار ممالک سے سائنسی اور تکنیکی معلومات حاصل کرنا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں سوویت یونین سے باہر سفر کرنے کی بھی اجازت تھی۔

مگر ان کے لیے شاید یہ کافی نہیں تھا، پینکوسکی رضاکارانہ طور پر مغرب کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سوویت حکومت سے بہت ناراض تھے۔

ڈنس بتاتے ہیں کہ ’پینکوسکی کی شخصیت میں بہت سی خامیاں تھیں۔ انھوں نے اپنے کام کو بہت بہادری کے طور پر پیش کیا، اگرچہ وہ مغرب کے حامی تھے لیکن حقیقت میں ان کا اصل مقصد سوویت یونین کے نظام اور وزیر اعظم خروشیف سے انتقام لینا تھا کیونکہ وہ اس بات پر شدید ناراض تھے کہ انھیں ترقی نہیں دی گئی تھی۔‘

انتقام کی اسی خواہش کی وجہ سے انھوں نے مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، البتہ ابتدائی طور پر یہ کوششیں ناکام رہیں کیونکہ ہر وہ شخص جس سے انھوں نے رابطہ کیا اس نے یہ سوچ کر ان کی پیشکش کو مسترد کر دیا کہ یہ سوویت خفیہ ایجنسی کی کوئی چال ہے یا ان کی طرف سے کوئی جال بچھایا جا رہا ہے۔

گریول وائن

برطانوی تاجر گریول وائن

یہ بھی پڑھیے

سرد جنگ کے دوران جب پاکستانی فضائی اڈہ امریکہ کے زیراستعمال ہونے کا راز کھلا

جب امریکہ نے جاسوسی کے لیے کبوتر استعمال کیے

ہائیڈروجن بم: امریکی سائنسدان جس نے ’دنیا کا سب سے بڑا راز‘ ٹرین کے ٹوائلٹ میں کھو دیا

ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین میں پاکستان نے امریکہ کی کیسے مدد کی؟

ڈنس اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ’پینکوسکی بہت شدت سے کسی کو اپنی بات سننے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس دوران وہ گریول وائن کو لندن میں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے لیے کچھ دستاویزات دینے میں کامیاب ہو گئے، جنھوں نے ان دستاویزات کا جائزہ لیا، سی آئی اے سے بات کی اور اس بارے میں بات آگے بڑھانے کی اجازت دی۔‘

یہ جانتے ہوئے کہ وائن پہلے ہی پینکوسکی کے ساتھ بطور ایک تاجر کے رابطے میں تھے اور انھیں ماسکو اور دنیا کے دیگر شہروں کا اکثر سفر کرنا پڑتا تھا، رابطہ کار کے طور پر استعمال کرنا ممکن سمجھا گیا اور یہ کہ وہ دونوں بنا کسی شکوک و شبہات کے اکثر رابطے میں رہ سکتے تھے۔

پینکوسکی نے سوویت یونین سے یہ بہانہ بنا کر کہ وہ پیرس اور لندن میں منقعدہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میلوں میں شرکت کرنے جا رہے ہیں، گھنٹوں سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے ایجنٹوں سے گفتگو کرنے کے مواقع ملتے رہے اور ان ملاقاتوں میں انھوں نے سوویت یونین کی معیشت، فوج، سیاسی صورتحال کے متعلق بہت تفصیلی معلومات فراہم کی تھی۔

ان ملاقاتوں میں پینکوسکی کی شخصیت کے بہت سے متنازع پہلو بھی سامنے آئے۔

ڈنس کہتے ہیں کہ ’وہ کافی لالچی اور خود پسند تھے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ ملکہ الزبتھ دوم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’وہ جسم فروش خواتین چاہتے تھے، وہ ایک مصیبت تھے، وہ خامیوں سے بھرپور انسان تھے۔ وہ کوئی ہیرو قسم کا شخص نہیں تھا اور یہ بھی سچ ہے جیسا کہ بینجمن فشر نے الزام لگایا کہ پینکوسکی کے پاس ماسکو کو اڑانے کا ایک جنونی منصوبہ تھا اور اس نے ایم آئی سکس کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں مشورہ دیا کہ وہ اس شہر کے ارد گرد کنٹینرز میں کسی قسم کے پورٹیبل ایٹمی میزائل رکھ دیں۔‘

ایٹمی حملے کی جھوٹی تنبیہ

لندن اور پیرس میں ہونے والی ملاقاتوں کے علاوہ سی آئی اے اور ایم آئی سکس نے پینکوسکی کے ساتھ رابطے کا ایک طریقہ کار قائم کیا تاکہ وہ انھیں خفیہ دستاویزات محفوظ طریقے سے بھیج سکے۔

عام طور پر، وہ ایک چھوٹے کیمرے سے اس مواد اور دستاویزات کی تصویریں کھینچتے اور پھر اس کی مائیکرو فلم کو سگریٹ کے پیکٹ، ٹافیوں کے ڈبوں یا دیگر قسم کی پیکیجنگ میں محفوظ کرتے تھے، جسے وہ پہلے سے بتائی گئی جگہوں پر چھوڑ آتا تھا اور وہاں سے ان چیزوں کو ماسکو میں موجود مغربی خفیہ ایجنٹ لے جاتے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق اپریل 1961 اور اکتوبر 1962 کے درمیان پینکوسکی نے 110 سے زیادہ تصاویر اور فلمیں مخربی ایجنسیوں کے حوالے کی، جن میں تقریباً 140 گھنٹے کے انٹرویوز کا ترجمہ اور انٹیلیجنس رپورٹس کے 10,000 سے زیادہ صفحات تھے۔

پینکوسکی

ماسکو میں رابطے میں رہنے کی مشکلات کے پیش نظر مغربی ایجنسیوں اور پینکوسکی نے ٹیلی فون سگنلز کا ایک نظام بھی قائم کیا تھا تاکہ اگر انھیں مغرب پر سوویت جوہری حملے کی مصدقہ اطلاع ملے تو وہ وہ فوری طور پر مغرب کو اس حوالے سے تنبیہ جاری کر سکے۔

ایسے حالات میں پینکوسکی کو ماسکو میں موجود سی آئی اے ایجنٹوں اور ایم آئی سکس کے ایجنٹوں کو اطلاع دینے کے لیے ایک ایک فون نمبر دیا گیا تھا۔ جہاں انھیں کال کر کے تین بار پھونک مارنی تھی اور فون رکھ دینا تھا۔

دو نومبر 1962 کو روسی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں پینکوسکی کی گرفتاری کے دس دن بعد ماسکو میں سی آئی اے کے نائب سربراہ ہیو منٹگمری اور ایم آئی سکس کے ماسکو میں سربراہ گرویز کورل کو یہ خفیہ اشارہ ملا تھا۔

خوش قسمتی سے دونوں خفیہ ایجنسیوں نے اس خفیہ اشارے کو مشکوک طور پر لیا اور شاید ایک ممکنہ ہولناک ردعمل سے محفوظ رکھا تاہم امریکی اور برطانوی افواج سوویت یونین کی جانب سے ممکنہ میزائل حملے کے لیے تیار رہے تھے۔

پینکوسکی کی جانب سے دیے گئے حفیہ اشارے اور تنبیہ پر امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے محتاط ردعمل کی وضاحت اس بات سے کی جا سکتی ہے کہ دونوں ایجنسیوں نے یہ محسوس کیا تھا کہ اس عرصے کے حالیہ مہینوں میں پینکوسکی کی جانب سے دی جانے والی خفیہ معلومات کی اہمیت اور معیار اب ویسا نہیں رہا تھا جیسا ابتدا میں تھا۔

لہذا اس بات کے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے کہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کو اس کے بارے میں علم ہو گیا ہے اور وہ اسے امریکہ اور برطانیہ کو غلط معلومات فراہم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

برطانوی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کورول نے اسی نظریے کے تحت پینکوسکی کے ایٹمی حملے سے متعلق فراہم کردہ خفیہ اشارے کو غلط تنبیہ قرار دیتے ہوئے اس متعلق لندن کو آگاہ نہیں کیا تھا۔

جبکہ سی آئی اے کے ماسکو میں نائب سربراہ منٹگمری نے یہ پیغام سی آئی اے میں اپنے افسران تک پہنچایا تھا جنھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ماسکو میں اپنا ایک اور جاسوس بھیجا جائے تاکہ یہ معلومات حاصل کی جا سکیں کہ کہیں پینکوسکی نے یہ اطلاع غلطی سے تو نہیں دے دی۔

اس سلسلے میں پینکوسکی نے پہلے سے طے شدہ مقام پر اس بارے میں مزید معلومات دینے کا کہا مگر جیسے ہی امریکی حکام وہاں پہنچے تو انھیں فوراً کے جی بی نے حراست میں لے لیا تھا۔

جیریمی ڈنس کے مطابق، دسمبر 1962 میں ازویسٹیا اخبار میں شائع ہونے والا ایک مضمون اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ شاید اس وقت کیا ہوا تھا۔

ڈنس نے سنہ 2017 میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’اس میں کہا گیا تھا کہ پینکوسکی کے پاس امریکیوں سے رابطہ کرنے کے دو طریقے تھے، جن میں سے ایک کسی غیر متوقع خطرے کی اطلاع کے لیے ’فون کے ذریعے تین پھونکیں مار کر فون بند کرنا تھا۔‘ بظاہر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے پکڑے جانے کے بعد یہ طریقہ کے جی بی کو بتایا مگر اس کے ذریعے دیے جانے والے پیغام کی نوعیت کے متعلق نہیں بتایا تھا۔ ورنہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی صرف سی آئی اے ایجنٹ کو گرفتار کرنے کے لیے ایٹمی جنگ چھیڑنے کا خطرہ مول نہ لیتی۔‘

لہذا اس طرح اس وقت جس جاسوس نے دنیا کو بچایا تھا وہ ہی اس کو تباہ کرنے کے دہانے پر لے آیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32619 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments