موت سے پہلے ہی قبر میں جا لیٹوں کیا؟


ماں بیٹی کمرے میں داخل ہوئیں، عمر رسیدہ ماں لاٹھی ٹیکتی ہوئی۔

بیٹی کے کچھ مسائل تھے جو ہمیں حل کرنے تھے۔ فارغ ہو کر ماں نے کہا ہسپتال اٹینڈ کرنے کا سرٹیفیکیٹ بنا دیں۔

ہم نے کھٹا کھٹ کمپیوٹر سے سرٹیفیکٹ بنایا، پرنٹر سے چھاپا اور دستخط کر کے بڑی بی کے ہاتھ میں تھمایا۔
بڑی بی نے جھٹ چشمہ پہنا، سرٹیفکیٹ سے نام پڑھا اور کہنے لگیں، دکتورہ تم نے نام غلط لکھا ہے۔
نہیں وہی نام ہے جو کمپیوٹر میں لکھا ہے۔
مگر وہ نام تو مریضہ کا ہے۔
تو اسی کے لیے تو سرٹیفکیٹ بنایا ہے۔
مگر سرٹیفیکٹ تو مجھے چاہیے، بڑی بی بولیں۔
کسے۔ کسے چاہیے؟ ہم حیران۔
مجھے۔
آپ کیا کریں گی سرٹیفکیٹ کا؟
سکول میں دکھاؤں گی۔
سکول؟ کیا ابھی تک سکول میں کام کر رہی ہیں؟ ریٹائر نہیں ہوئیں؟
میں کام نہیں کرتی، پڑھتی ہوں۔
پڑھتی۔ یعنی کہ سکول میں۔ سکول۔ اس عمر میں پڑھائی، ہم بری طرح ہکلا رہے تھے۔
ہاں میں سکول میں پڑھتی ہوں اور پچھلے برس ہی داخلہ لیا ہے، وہ مسکرا کر بولیں۔
اب تک ہم شدید حیرت میں گھر چکے تھے اور سب مریض بھول بھال، بڑی بی کا انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔
آپ کی عمر کیا ہے؟
پچھتر برس!
بچے کتنے ہیں؟
سات!
آپ سکول میں کیا پڑھتی ہیں؟
جو ہماری کلاس کا کورس ہے، حساب، عربی، انگریزی، کمپیوٹر۔
آپ کون سے گریڈ میں ہیں؟
پہلا گریڈ۔
کیا سکھایا سکول والوں نے ابھی تک؟

پہلے میں نے حروف تہجی سیکھے۔ گنتی سیکھی، اب پڑھنا سیکھ رہی ہوں۔ حروف جوڑ کر لکھ بھی لیتی ہوں۔ کمپیوٹر پہ گوگل چلانا سیکھ لیا ہے۔

آپ کی کلاس میں کتنی عورتیں ہیں؟
چوبیس۔
کیا عمریں ہیں ان کی؟
سب پچاس ساٹھ سے اوپر کی ہیں۔
سکول جانے کا خیال کیسے آیا؟
ہمارے بچپن میں سکول نہیں تھے سو پڑھ لکھ نہیں سکے۔ اب حکومت نے سکول بنا دیے ہیں تو کیوں نہ پڑھیں؟
کیا آپ لوگوں کے لیے علیحدہ سے سکول بنائے گئے ہیں۔
نہیں، وہی بچوں والے ہیں۔ بچوں کی کلاسیں صبح اور ہماری تین بجے کے بعد ۔
اس عمر میں پڑھنا مشکل نہیں لگتا کیا؟ ہم نے جھکی کمر والی بڑی بی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

تو کیا مرنے سے پہلے ہی قبر میں جا لیٹیں، دکتورہ۔ زندہ ہیں تو زندہ ہی کی طرح رہنا چاہیے نا۔ زندگی کے ہوتے ہوئے موت کا انتظار کیوں کریں؟

باقی عورتیں کیا محسوس کرتی ہیں؟

سب بہت خوش ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ہیں، ہمارا وجود، ہماری ذات۔ ہم صرف بچے پیدا کرنے اور گھر داری کرنے کے لیے دنیا میں نہیں آئیں تھیں۔

سر گھوم گیا بڑی بی کی باتیں سن کر اور نظر کے سامنے اپنے یہاں کی عورت آ گئی جس پر شادی کے بعد ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے سوائے گھر داری، زچگی اور بچوں کی پرورش کے۔ اور جب وہ ان سے فارغ ہوتی ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی جاتی ہے کہ اب آپ اللہ اللہ کرو، آخرت کی تیاری۔

آخر عورت کو یہ بیڑیاں پہنائیں کس نے؟

چلیے اس سرزمین کی قدیم تاریخ کنگھالتے ہیں جہاں کے نسلی طور پہ ہم باسی ہیں اور بھلے ہم مذہب تبدیل کر چکے مگر روایات، اقدار، رسومات، یقین، انداز اور سوچ میں سب کچھ وہی۔

وجہ انہونی نہیں۔ ہندو ازم صدیوں پرانا طریق اور جب اس دھرتی کے انسان کا دوسرے مذاہب کی طرف رجحان ہوا تب بھی قدیم روایات انسان کے ساتھ ہی رہیں کہ گھٹی میں پڑی تھیں۔

ہندوازم میں انسان کی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ برہمچاریہ، گرہستا، وناپراشتا، سنیاسا۔

برہمچاریہ؛

یہ دور پیدائش سے شروع ہو کر شادی تک محیط ہے۔ بچپن، بلوغت، کنوار پن، تعلیم، تربیت، مذہبی پریکٹس اس دور میں اہم ہے۔ اس کے بعد فرد کو گرہستا میں دھکیلنے کی باری آتی ہے۔

گرہستا؛

جی یہ وہی لفظ ہے جس سے گھر گرہستی ماخوذ ہے۔ گرہستا نام سے ہی سمجھ جائیے کہ فرد کو گھر داری کا بوجھ اٹھانا ہے۔ شادی، بچے، جنس، اور خاندان۔ اس دور کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے اور یہ بیس بائیس کی عمر سے لے کر پینتالیس پچاس تک چلتا ہے۔ یہ دور مرد کے لیے کچھ دیر سے شروع ہوتا ہے تاکہ مالی طور پہ مستحکم ہو لیکن عورت کو یہ چھوٹ نہیں دی جاتی۔ وہ جتنی جلد گرہستا میں داخل ہو، اتنا بہتر۔

وناپراشتا؛

چلیے جی بچوں کی شادیاں شروع ہو گئیں کہ گرہستا میں شامل ہونے کی اب ان کی باری۔ بہو آ گئی، گھر کی ذمہ داری اب اس پہ۔ ساس چوکی پہ جا بیٹھی اور ماتھے پہ تیوری ڈالے، عینک ناک کی پھننگ پہ جمائے تنقید و طنز کا کوڑا آنے والی پہ برسانے لگی۔ سسر صاحب اخبار اور ٹی وی میں گم، پوتے پوتیوں کو مارکیٹ سے ٹافی دلانے کی ڈیوٹی پہ مامور۔

دنیاوی شوق اور چاہت کو تج دینے کا زمانہ۔
سنیاسا؛

لیجیے سنیاسی بابا بننے کا وقت بھی آ گیا۔ ایسا وقت جب دنیا سے کسی بھی قسم کا لگاؤ لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث بنے۔ توبہ توبہ بال سفید ہو گئے، اب بھی دنیا کی چاہ۔ دوسرے جہاں کی تیاری کرو، یہیں تو بیٹھے نہیں رہنا، فانی ہے سب کچھ۔

کہیے، کیا پہچانے آپ نے اپنی زندگی کے ادوار اور ان کی خصوصیات؟ وہی سب کچھ جو ہندو ازم کی تعلیمات میں تھا صدیوں سے، آج بھی پریکٹس جاری ہے۔

لطف کی بات یہ کہ اکیسویں صدی کے ہندوازم میں وہاں کے لوگوں نے قدیم روایات سے کافی حد تک منہ موڑ کر زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ گو کہ مسلمان معاشرہ ہے لیکن پھر بھی گرہستا کی زنجیر عورت کو جلد سے جلد پہنے دیکھنا چاہتا ہے۔

برہم چار یہ دور میں بچی کی تربیت ہی اس نہج پہ کی جاتی ہے کہ وہ دل سے ایمان لے آئے کہ اس کا اصل گرہستا میں ہے اور پھر پچاس کے بعد سنیاسا۔

ہماری مانئیے تو ان بڑی بی کی طرح زندگی کو زندگی سمجھ کر جینا شروع کیجیے۔ وقت سے پہلے ہی ستی مت ہو جائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments