بلی تھیلے سے باہر


سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53 ویں اجلاس میں اسرائیل کی نائب مستقل مندوب آدی فرجون نے کہا کہ اسرائیل کو پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال پر گہری تشویش ہے جہاں جبری گمشدگیاں، تشدد، پرامن احتجاج پر کریک ڈاؤن، مذہبی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروپوں کے خلاف تشدد جاری ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان من مانی گرفتاریوں، تشدد، دوسرے ناروا سلوک کو روکے، ایسی کارروائیوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور سزائے موت کا وسیع استعمال، خصوصاً بچوں اور معذور افراد کے معاملے میں، ختم کرنے کے لیے ہماری سفارشات پر عمل کرے۔

پاکستان انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق ہم جنس پرستی کی قانونی اجازت دے اور امتیازی سلوک کے خلاف جامع قانون سازی کرے جو جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے۔ جنوری 2023 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے توہین مذہب کے ان قوانین کو سخت کرنے کی قرارداد منظور کی جو اکثر مذہبی اور دیگر اقلیتوں کو ہدف اور انہیں جبر کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سفارشات کی آڑ میں یہ چارج شیٹ ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے اسرائیلی بیانیے کو سیاسی محرک قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ اسرائیل خود فلسطینیوں پر ظلم و تشدد کی طویل تاریخ کا حامل ہے : پاکستان اس کے مشورے کے بغیر بھی انسانی حقوق کا بخوبی تحفظ کر سکتا ہے۔

تباہی رقص کرتی ہے سدا جن کے اشاروں پر
انہی کا باغ عالم میں تسلط ہے بہاروں پر

پاکستان کئی عشروں سے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہے جو ”بین الاقوامی مسلمہ قوانین“ کے مطابق اور 1967 کی جنگ سے پہلے والی سرحدوں پر مبنی ہو۔ پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی یا سفارتی تعلقات کبھی نہیں رہے، پاکستانی حکومتیں بار بار یہ کہتی رہی ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں جا سکتا۔ ماضی کو دیکھیں تو 1945 میں قائد اعظمؒ نے بمبئی کے ایک جلسے میں امریکی صدر ٹرومین کو کہا کہ وہ دس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے بجائے امریکہ میں آباد کیوں نہیں کر لیتے؟ 1947 میں اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے قائداعظمؒ کو ٹیلی گرام بھیجا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت کی۔

پاکستان کو بھارت سمیت جن دوسرے ممالک کی سازشوں کا سامنا ہے ان میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ ماضی میں بھی بھارت اور اسرائیل نے مل کر راجستھان سے پاکستان پر ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں کو بر وقت اطلاع مل گئی اور یوں یہ حملہ ٹل گیا۔ بھارت اور اسرائیل کا اصل نشانہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہے۔ دونوں نیو کلیئر فری پاکستان کے خواہاں ہیں۔

پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کئی عشروں تک غیر سرکاری تعلقات رہے۔ عمران خان اور دوسرے پاکستانی حکمرانوں کو ان کے ادوار حکومت میں مشورہ دیا گیا کہ بھارت اور اسرائیل کا اتحاد توڑنے کے لئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں۔ دلیل یہ دی جاتی رہی کہ اگر تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات، مصر، اردن اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہو سکتے ہیں تو پاکستان کو سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کیا حرج ہے، ؟

پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایسے ارکان پائے جاتے ہیں جو اسرائیل سے تعلقات کو درست سمجھتے ہیں، عمران خان کی وزارت عظمی میں ان کی جماعت کی رکن پارلیمنٹ نے اسرائیل سے تعلقات کے لیے دلائل دیے، اسی طرح اور کئی افراد جو لبرل سوچ رکھتے ہیں وہ بھی اس حوالہ سے لچک رکھتے ہیں لیکن ردعمل کی وجہ سے اپنے نظریات کا کھل کا اظہار نہیں کرتے

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحث جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوئی جب امریکہ نے ”آپریشن سائیکلون“ کے ذریعہ افغانستان میں روس کے خلاف مزاحمت کرنے والے ’مجاہدین ”کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ اسرائیل کی خدمات بھی حاصل کیں۔ 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے بعد نواز شریف کے ادوار حکومت میں اسرائیل کو “ انگیج ”کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ 1993 میں بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں تو انہیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پاکستان کے تمام بیرونی قرضے معاف ہو سکتے ہیں۔

1994 میں ان کی جنیوا میں یاسر عرفات سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یاسر عرفات کو یہ ماجرا سنایا تو یاسر عرفات نے گلوگیر لہجے میں کہا ہمیں مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لئے تیار نہیں اور مذاکرات کے ذریعہ صرف ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کر لی تو ہم مذاکرات کے قابل بھی نہ رہیں گے۔ اس ملاقات کے اگلے دن ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہش ظاہر کی لیکن بے نظیر حکومت نے اس معاملے پر ختم کر دیا۔

اسرائیل کے ساتھ دوستی کی کھلم کھلا کوششوں کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ مشرف حکومت کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ سرعام رابطوں پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں شور ہوا تو خاموشی اختیار کر لی گئی۔ بھارت مسئلہ کشمیر اور اسرائیل فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ پس پشت ڈالتے رہے۔ اب عمران خان سے اسرائیل کی اظہار یک جہتی کی بات ہو جائے۔ 8 نومبر 2022، کو اسرائیل کے سب سے بڑے اخبار ”ہرٹز“ نے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر وزیر آباد حملے میں اس لیے گولی ماری گئی کہ وہ ”اسرائیل کے دوست“ تھے۔ 85

حملہ آور کہتا ہے کہ عمران خان پر حملہ اس لیے کیا کہ ان کی حکومت نے اسرائیل کو قبول کیا۔ پاکستان میں قیام پاکستان سے اب تک اسرائیل مخالف جذبات انتہا پر ہیں۔ 2000 کی دہائی میں پاکستان کے بعض حلقوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی تھی۔ لیکن اس محاذ پر زیادہ تر پیش رفت عمران خان کی نگرانی میں ہوئی جب وہ حکومت میں تھے۔

اکتوبر 2018 میں عمران خان کی حکومت کے دو ماہ بعد پاکستانی میڈیا میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 2019 میں امریکا میں عمران خان کی یہودی جارج سوروس کے ساتھ ملاقات نے ان کے خلاف سازشی نظریات کو دوبارہ زندہ کیا۔ یو اے ای کے ساتھ اسرائیل کے معاہدے کے بعد عمران خان کے دور میں اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی گئی ہیں۔

عمران خان تسلیم کرچکے ہیں کہ ان پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے بہت دباؤ تھا۔ دوسری طرف عمران خان کا اس سوال پر کہ متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی کو پاکستان کیسے دیکھ رہا ہے، کہنا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ اس معاملے پر ہمارا موقف قائداعظم نے 1948 میں واضح کر دیا تھا کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔

اگر ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر ایسی ہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے تو ہمیں تو اسے بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ لہذا پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ ”اس موقف کے باوجود اسرائیل کا انسانی حقوق کا علمبردار بننا اور عمران خان کی حمایت میں کھڑا ہونا مضحکہ خیز ہے وہ اسرائیل یہ درس دے رہا ہے جو 70 سال سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے

امریکی سائفر سے شروع ہونے والی کہانی امریکہ میں لابنگ سے ہوتی ہوئی اسرائیلی حمایت تک آنا عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی کرے گا خصوصاً پی ٹی آئی سوشل میڈٰیا ٹیم کے کچھ ارکان میں پذیرائی اور عمران خان سمیت باقیوں کی خاموشی بمنزلۃ رضا سمجھی جا رہی ہے۔

کچھ حلقے اسے حکیم سعید کی اس پیشگوئی سے جوڑ رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسا لیڈر آئے گا جس کا اسرائیل سے گٹھ جوڑ ہو گا۔ اسی طرح فارن فنڈنگ میں آنے والی اسرائیلی فنڈنگ کا تذکرہ بھی بطور استدلال پیش کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل سے یہ دریافت کرنا چاہیے کہ دفاعی تنصیبات پر حملے، گھیراؤ، جلاؤ اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی پرامن احتجاج تھا؟ ایسے پرامن احتجاج، کی کیا فلسطینیوں کو اجازت دی جائے گی؟

اسرائیل کیپٹل ہل حملے میں ملوث لوگوں کی گرفتاری اور سزا پر نہیں بولا، کیا وجہ ہے وہ پاکستان کے حساس تنصیبات پر حملہ آوروں کے حق میں سفارشات پیش کر رہا ہے۔ اسرائیل خود 70 سالوں سے ہر روز فلسطین کے عوام کے بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے، وہ کس منہ اور حیثیت سے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کو لیکچر دے رہا ہے۔ اسرائیلی مندوب کی باقی جارج شیٹ پر بھی نظر ڈال لیں تو مذہبی اقلیتوں، پسماندہ گروپوں، سزائے موت، ہم جنس پرستی، صنفی امتیاز اور توہین مذہب کے متعلق سخت قوانین کے ذریعے جبر کے لیے استعمال کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ”بلی تھیلے سے باہر آ گئی“ ہے۔ یعنی جو کچھ صیغہ راز میں تھا وہ اسرائیلی بیانیے سے سامنے آ گیا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں معاشی و سیاسی عدم استحکام کے لیے عمران خان کو ”داشتہ بکار آید“ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments