قومی افق پر چھائی تاریکی اور ایک چراغ کا اعلان


آج داغ دہلوی کا ایک شعر نظر سے گزرا۔
زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں
یہ شعر پڑھتے پڑھتے اقبال بانو کی دل سوز آواز میں باقی صدیقی کی ایک نہایت شاندار غزل کا مطلع ذہن میں طلوع ہوا
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
ذرا سا غور کرنے پر خیال آیا کہ دونوں اشعار میں کوئی مماثلت نہیں ماسوائے لفظ داغ کے۔ مگر یہ دونوں اشعار کسی نہ کسی انداز میں دل و دماغ کی کیفیات سے ہم آہنگ ہیں۔ مگر کیوں؟
دیکھئے میں ایک نوجوان ہوں جو اپنی 16 سالہ تعلیم کے آخری مراحل میں ہے۔ تعلیم کا سفر تو جاری یے مگر جب اپنے جیسے نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو ایک گہری مایوسی ہر طرف دکھائی دیتی ہے۔ یہ میں اور میرے ہم عمر نوجوان ہی تھے جو دو ایک سال پہلے تک بہت پرجوش تھے، دن میں خواب دیکھتے تھے اور راتوں کو تعبیر میں جت جاتے۔ کام کرتے، ہنستے، کھیلتے، میں کبھی انھیں ناصر کاظمی کے مختصر مگر جامع اشعار سنا کے حیران کرتا تو کبھی وہ مجھ سے پروین شاکر کی طویل نظموں کی فرمائش کرتے۔ کبھی معیشت پر گفتگو کرتے ہوئے وہ مجھے حیران کرتے تو کبھی ہم یار دوست ڈیٹا سائنس کے میدان میں نئے ابھرنے والے امکانات پر غور کرتے۔ (میری ڈگری اکنامکس اور ڈیٹا سائنس سے متعلق ہے)
الغرض کہ جوانی کی ریل زندگی کی پیچ دار پٹڑی پر خوب دوڑ رہی تھی مگر اب کچھ عرصے سے حالات یکسر مختلف ہیں۔ جس بھی نوجوان دوست سے بات کی جائے، مایوسی کی مدہوش کر دینے والی خبر ہی آرہی ہے۔ کوئی وطن عزیز کو خیر باد کہنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے تو کوئی یہی خیال دماغ میں لئے سوالیہ نظروں سے دائیں بائیں دیکھ رہا ہے۔ اگلے روز ایک عزیز پروفیسر (جو خود بھی وطن عزیز سے جارہے ہیں) کہنے لگے کہ “آپ لوگوں کو یہ ملک بہت ہی ابتر حالت میں ملا ہے”۔ یقینا درست کہہ گئے۔
خوابوں سے بھرے ہم نو جوانوں پر حالات کی مایوسی کی بدولت کیا گزرتی ہے یہ کون سوچے سمجھے گا؟ پاکستان ہمارا وطن تھا، ہے اور رہے گا مگر یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا اور اس پہ چھاؤں تلاش کرنا۔
امید کسی بھی عمر کے انسان کا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔ مذہب، سیاست، معیشت، ریاست، سب نے ہم نوجوانوں سے کچھ نہیں چھینا، بس ایک امید چھین لی ہے یا کم از کم پوری طاقت سے چھین نے کی کوشش کی ہے۔ ہم ریاست کو “راہ راست” پر نہیں لا سکتے مگر اتنا کچھ بگاڑ دیا گیا ہے کہ ہم نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی ماند پڑ گئی ہے، ہمارے بالوں میں چاندی نے گھر کر لیا ہے۔
سڑکوں پر رونما ہونے والے روز روز کے حادثات، جنگل کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ انسان انسان سے الجھ کر رہ گیا ہے۔ ناصر کاظمی کا یہ شعر، شہر کی ہر دیوار پہ ظاہر ہو رہا ہے:
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
امید سحر، مردہ نہیں ہوئی بلکہ اب معطل ہو گئی ہے۔ اقبال چیخ چیخ کر “از خواب گراں خیز” (یعنی گہری نیند سے اٹھ) کہہ کر بہت پہلے رخصت ہو چکے مگر مجموعی غنودگی ابھی تک طاری ہے۔
غالب کہہ رہے ہیں:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
لیکن فیض کی آواز زیادہ گمبھیر ہے:
امید سحر کی بات سنو
مگر آج بھی ہم نوجوانوں کا آخری جواب امیر قزلباش کا یہ شعر ہے:
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments