پاکستان اور اس کی معیشت


یوں تو کمزور اقتصادی ترقی، بڑھتی ہوئی افراط زر طاقتور معیشتوں کی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح سود کے ساتھ عالمی معیشت بد حالی کا شکار ہے اس کے علاوہ وبائی امراض کے میراثی اثرات، یوکرین میں طویل جنگ، موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات عالمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

معاشی لحاظ سے دنیا بیک وقت کئی باہم ربط رکھنے والی بحرانوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ایسے کٹھن حالات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ہونا ایک فطری عمل ہے مگر اتنا منفی عمل کہ اک عام شہری کا دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا مشکل ہو جائے ایسا ما سوائے پاکستان کے کس اور ملک میں نظر نہیں آ یا جو کی تشویش ناک صورتحال ہے پاکستان کو مسلسل شدید اقتصادی صورتحال کا سامنا ہے اس وقت پاکستان میں سالانہ افراط زر کی شرح ستمبر 2023 میں 31 اعشاریہ 4 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے جو کہ گزشتہ ماہ 27 اعشاریہ 4 فیصد تک تھی جس کی وجہ سے ایندھن اور توانائی کی بلند قیمتیں تھیں نومبر 2021 سے مہنگائی مسلسل دوہرے ہندسوں میں بلند ہو رہی ہے جو کہ عموماً دیرینہ خود ساختہ کمزوریوں کی عکاسی بھی کرتا ہے حالانکہ پاکستان 2001 سے 2018 کے درمیانی عرصے میں کو غربت کمی کی جانب ایک نمایاں پیش رفت بھی کی معاشی مواقعے کی توسیع اور ترسیلات زر کی بڑھتی ہوئی آمد نے 47 ملین سے زائد پاکستانیوں کو غربت سے باہر نکلنے کا موقع دیا لیکن بعد کے حالات اور مسلسل معاشی پالیسیوں کا ناکام رہنا بڑے معاشی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور پھر پاکستان کی معیشت اس وقت کم زرمبادلہ کے ذخائر کرنسی کی قدر میں کمی اور بلند افراط زر کے باعث شدید دباؤ کا شکار رہی ہے پھر 2022 کے تباہ کن سیلاب، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اضافے، عالمی مالیاتی حالات میں سختی، غیریقینی ملکی سیاسی صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اقتصادی سرگرمیاں کم تر ہوئی چلی گئی غیر ملکی ذخائر میں کمی درآمدی، پابندیوں، جیسے مسائل نے معیشت کو کمزور کر دیا۔

لیکن ان سب کے باوجود پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ یہ رہا کہ ہم آئی ایم ایف یا کسی بھی مالیاتی ادارے سے نہ صرف کسی طور اپنے ملکی مفاد پر بات کرنے کے قابل نہیں رہے ذاتی مفاد اور اس کے مطابق معاہدات کے حصول کے لئے ہم کسی سطح پر بھی جاننے کو تیار ہوتے ہیں ہمارے رہنما وہی فیصلوں پر بضد ہوتے ہیں جو کہ ان اپنے کاروباری اور ذاتی فوائد لیے ہوں عوام کے لئے کل سوچا جا رہا تھا نہ اب سوچا جا رہا ہے ایک عام پاکستانی کی سطح سے ہر چیز اب بہت دور رہ گئی ہے ایک عام شہری معیار زندگی بہتر بنانے کی بجائے صرف اور صرف اپنے خاندان کا فی الفور پیٹ بھرنے کو ترجیح سمجھ رہا ہے کیونکہ یہ بھی اب نہ ممکن ہوتا جا رہا ہے اور ہر بنیادی ضرورت عام آدم کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے آئے دن ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے ہر شے کی قیمت میں اضافی ناگزیر ہو گیا ہے اس صورتحال سے جلد از جلد باہر آنا ہو گا ورنہ پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا کیونکہ ضروریات زندگی کی با آسانی فراہمی ہی کسی بھی معاشرے اور ملک کے لئے باعث اطمینان ہوا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments