یورپ میں اسلام دشمنی اور مسلمان گروہوں کا طرزعمل


سویڈن کے وزیر اعظم اولف کرسٹن سون نے دائیں بازو کی جماعت سویڈش ڈیموکریٹس کے سربراہ جمی اکے سون کے اس بیان کی مذمت کی ہے کہ بعض مساجد کو گرا دینا چاہیے۔ سویڈش وزیر اعظم کا یہ ردعمل درحقیقت یورپ میں دائیں بازو کے اسلام دشمن طوفان کے سامنے بند باندھنے کی کوشش ہے جو پورے یورپ کو مسلمانوں سے پاک کرنا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر جاری ایک بیان میں اولف کرسٹن سون کا کہنا ہے کہ سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر کا بیان سویڈن کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس میں دوسرے عقائد کے بارے میں عدم احترام کا رویہ اختیار کرتے ہوئے معاشرے میں گروہ بندی کو ہوا دی گئی ہے۔ اس طرز عمل کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سویڈن میں ہم عبادت گاہوں کو نہیں گراتے۔ ہمیں ایک معاشرے کے طور پر اس قسم کی سوچ کا مقابلہ کرنا ہو گا‘ ۔

سویڈش وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مسجدوں کو گرانے جیسے بیانات سے دنیا میں سویڈن کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے، نیٹو میں شمولیت کے لئے ہماری درخواست پر نئے سوال کھڑے ہوسکتے ہیں اور اس طرزعمل سے سویڈن اور اس کے عوام کی سلامتی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ واضح رہے کہ ترکیہ نیٹو میں سویڈن کی شمولیت کے خلاف مشکلات کھڑی کرتا رہا ہے۔ اگرچہ ترکیہ کا اعتراض سویڈن میں بعض کرد لیڈروں کو پناہ دینے کے حوالے سے تھا تاہم جب اس سال کے شروع میں ایک عراقی نژاد شہری نے متعدد مواقع پر قرآن سوزی کی اور سویڈن نے اسے آزادی رائے کے اصول کے تحت قبول کیا تو ترک حکومت نے سویڈن کی اسلام دشمنی کو نیٹو میں شمولیت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

سویڈن کے وزیر اعظم کا بیان اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ان کی دائیں بازو کی حکومت سویڈش ڈیموکریٹس نامی انتہاپسند اور اسلام دشمن پارٹی کی سیاسی امداد کے سہارے قائم ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس اس وقت پارلیمنٹ کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ یہ اگرچہ حکمران اتحاد کا حصہ نہیں ہے لیکن اولف کرسٹن سون کو اقتدار میں رہنے کے لیے اس جماعت کی بعض سیاسی ضرورتیں پوری کرنا پڑتی ہیں۔ اسی لیے اب اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور سابق وزیر اعظم ماگدالینا آندرسون نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں سوشل ڈیموکریٹس کے تمام عہدیداروں کو برطرف کریں۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سویڈن کی موجودہ حکومت ایک نئے سیاسی بحران کو دعوت دینے کے لیے اپنی حمایت کرنے والی ایک سیاسی پارٹی کو مزید ناراض کرے گی۔ البتہ وزیر اعظم کا بیان سویڈن کو درپیش قومی اور بین الاقوامی مشکلات کی عکاسی ضرور کرتا ہے۔

سویڈن کے وزیر اعظم کے بیان کا پس منظر سویڈش ڈیموکریٹس پارٹی کے سربراہ جمی اکے سون کی ایک تقریر تھی جو انہوں نے سالانہ پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دو روز پہلے کی تھی۔ اکے سون کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بعض مساجد پر قبضہ کر کے انہیں گرا دینا چاہیے۔ ایسی تمام مساجد ختم ہونی چاہئیں جہاں جمہوریت، سویڈش روایات، ہم جنس پرستی مخالف اور یہود دشمن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اور عام طور سے غلط معلومات عام کی جاتی ہیں‘ ۔ اس بیان میں بیان کی گئی شکایات سویڈن کے علاوہ یورپ بھر میں مسلمانوں، ان کے مذہبی پیشواؤں، سماجی طریقہ زندگی اور تعصبات کے بارے میں عام طور سے سننے میں آتی ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اگرچہ اقلیت کے طور پر یورپی ممالک میں رہتے ہوئے مسلمان آبادیوں کو متعدد تعصبات اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے بارے میں شکایات بھی سننے میں آتی رہتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے بعض طبقات میں مقامی معاشرے، روایات، جمہوری طرز زندگی اور آزادی اظہار کے حوالے سے بعض تحفظات اور تعصبات بھی پائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمان حلقوں میں ان معاملات کو زیر بحث لانے اور ان کا تدارک کرنے کے لیے کام نہیں ہوتا۔

اس پس منظر میں سویڈش ڈیموکریٹس پارٹی جیسے سیاسی گروہ یورپ بھر میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں جس سے اگر ایک طرف مقامی سیاسی ماحول پراگندہ ہونے کا امکان ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے لئے سماجی و سیاسی مشکلات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کہنا مطلوب نہیں ہے کہ مسلمان ہی تمام مسائل کی جڑ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ مسلمان لیڈر اور ان کے مذہبی رہنما خاص طور سے سے صورت حال سے آگاہ ہوں تاکہ ان معاشروں میں مسلمانوں کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے کام کیا جا سکے۔ خاص طور سے آزادی رائے کے حوالے سے مسلمانوں کی طرف سے کبھی واضح اور دو ٹوک رویہ اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ اسلام یا اس کے شعائر پر نکتہ چینی کرنے والوں کو متعصب یا مذہب دشمن قرار دے کر آنکھیں موند لی جاتی ہیں۔ حالانکہ جو سیاسی لیڈر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سیاسی مہم جوئی کرتے ہیں، وہ معاشرے میں موجود احساسات کو زبان دے کر ہی مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ اس کی مثالیں فرانس، بلجیم، آسٹریا، سویڈن، ناروے اور ڈنمارک جیسے ممالک میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران ہی نیدر لینڈ میں مسلمانوں کے کٹر دشمن گیرٹ وائیلڈرز کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی نے انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ اس پارٹی نے 37 نشستیں حاصل کی ہیں جو کسی بھی دوسری مسلمہ سیاسی پارٹی سے زیادہ ہیں۔ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں کل 150 سیٹیں ہیں، اس طرح اب فریڈم پارٹی جو نیدرلینڈ کو مسلمانوں سے ’پاک‘ کرنے کا عزم رکھتی ہے اور جس کا لیڈر سالوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم جوئی میں ملوث رہا ہے، ملکی ایوان میں سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ اس کامیابی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یورپ بھر میں مسلمان دشمن رجحان معاشروں میں کس حد تک جڑیں پکڑ چکا ہے۔ گیرٹ وائیلڈرز کی فریڈم پارٹی کی کامیابی کے بعد متعدد مبصرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ دوسری پارٹیاں اس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر مجبور ہوں گی۔ اس طرح ایک قوم پرست اسلام دشمن پارٹی پہلی بار براہ راست یورپ کے کسی ملک میں برسر اقتدار آ سکتی ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے گیرٹ وائیلڈرز نے مسلمانوں کے خلاف اپنے بعض موقف میں یہ کہتے ہوئے نرمی پیدا کی ہے کہ فی الوقت ہمیں زیادہ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوسری سیاسی پارٹیوں کو تعاون پر آمادہ کرنے کے لیے پیغام دیا ہے کہ ’فریڈم پارٹی آئین و قانون سے ماورا کسی بات پر اصرار نہیں کرے گی‘ ۔ اگرچہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سیاسی طاقت ملنے پر کوئی پارٹی مرضی کی قانون سازی بھی کر سکتی ہے اور قواعد و ضوابط کے اطلاق میں ایسا طریقہ بھی اختیار جا سکتا ہے کہ ایک خاص گروہ یا طبقہ کو نشانہ بنایا جا سکے۔ اگر یہ ہتھکنڈا کامیاب رہے تو آئندہ انتخابات میں اسے مزید سیاسی کامیابی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے سماجی ماہرین انتہاپسندانہ سیاسی نظریات کے فروغ کو پریشانی و تشویش سے دیکھتے ہیں۔

البتہ اس کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی غورطلب ہونا چاہیے کہ کسی بھی یورپی ملک میں مسلمانوں کے خلاف ابھرنے والی رائے کے تدارک کے لیے مسلمان تنظیموں یا مساجد کی صورت میں کام کرنے والے مذہبی گروہوں کی طرف سے نہ تو کوئی واضح حکمت عملی دیکھنے میں آتی ہے اور نہ ہی اس بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کوئی کام کیا جاتا ہے۔ ان سب تنظیموں کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو مسلمان کر کے یا ایسے دعوے کر کے، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنا ہی سب سے بہتر و احسن طریقہ ہے۔ یا ہر فرقہ و گروہ اپنے مسلک کے مطابق قرآن کے تراجم یا قرآنی تعلیمات کو مقامی زبان میں عام کر کے یہ قیاس کر لیتا ہے کہ اس طریقہ سے مسلمانوں کی زندگی سہل ہو جائے گی۔ حالانکہ سماجی سطح پر ابھرنے والے تعصبات کا تعلق بیشتر صورتوں میں اگرچہ مالی معاملات سے ہوتا ہے لیکن اقلیتی گروہوں کے سماجی رویے، میل جول کا طریقہ یا معاشرے میں کارکردگی کے جائزے بھی ان تعصبات اور نفرت میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ یورپ میں محفوظ اور پر امن مستقبل کے لیے مسلمان اور ان کے لیڈر معاشرے میں ابھرنے والے ان احساسات کو نظرانداز کرنے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے یورپ کے مسلمان ابھی تک اس شعور سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ مسلمان گروہ عام طور سے مذہبی رواداری یا مساوات کے لیے سیاسی جد و جہد کرنے والے بائیں بازو کے سیاسی گروہوں کی حمایت میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ سیاسی نظریات کے حوالے سے یہ گروہ بھی مسلمانوں کے نظریات یا سوچ سے متفق نہیں ہیں۔ یہ صورت حال یورپ میں مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے خوش آئند نہیں ہے۔

یورپی ممالک میں خاص طور مساجد کا کردار گروہی تقسیم کم کرنے کی بجائے، اس میں اضافہ کا سبب بنا ہوا ہے۔ اگرچہ سویڈش ڈیموکریٹس یا نیدرلینڈ کی فریڈم پارٹی کے عائد کیے گئے سب الزامات درست نہیں ہیں بلکہ ان میں جھوٹ اور جذباتی لفاظی سے بھی کام لیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ مساجد میں متعین بیشتر امام مقامی زبانوں و ثقافت سے نابلد ہوتے ہیں اور وہ معاشرے میں گھل مل کر رہنے کی تبلیغ کرنے کی بجائے ’مقامی کفر‘ سے خود کو بچانے کا درس دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مختلف یورپی ممالک کے سیاسی مباحث میں مسلمان مذہبی طبقات کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب بھی متعدد مسلمان مذہبی گروہ مذہب کی تعلیم و ترویج کے لیے امام، مدرس یا مقرر اپنے ممالک سے مدعو کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں معاشروں میں جذب ہونے کا عمل مزید سست رو ہوجاتا ہے۔

یورپ کی انتہاپسند اسلام دشمن جماعتوں یا گروہوں کی نیک نیتی پر ضرور حرف زنی کی جا سکتی ہے لیکن مسلمانوں کو ان پہلوؤں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی جنہیں مسلمانوں کی کمزوری کے طور پر بیان کر کے مقامی ووٹروں کو ’گمراہ‘ کیا جاتا ہے۔ قوم پرست مسلمان دشمن گروہ اگر گمراہ ہیں تو ان کا جھوٹ عام لوگوں میں فاش کرنے کے لیے مسلمانوں کو متحرک ہونا چاہیے۔ ورنہ سویڈن، نیدر لینڈ اور دیگر یورپی معاشروں میں مسلمانوں کے خلاف جو زہر پھیلایا جا رہا ہے، اس سے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2796 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments