اسی برس کا شاعر جسے اور بھی جینا ہے


کچھ دن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ابھی اور جینا ہے۔ پھر ہنستے ہوئے اپنی بیٹی گیتی سے ہونے والی اس گفتگو کا ٹکڑا سنانے لگے جس میں ممتاز مفتی کا ذکر ہوا تھا۔ جی ممتاز مفتی جنہوں نے نوے برس کی عمر پائی۔ اور مشتاق یوسفی کا بھی، جو پچانوے برس جیے۔ شاید ایک آدھ مثال سو برس جینے والے ادیب کی بھی ان کے ذہن میں تازہ ہو گئی ہو گی مگر وہ یہ والا جملہ آدھا کہہ کر باقی چبا گئے۔ ہم سب ہنس رہے تھے اور ان کی جانب رشک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے ؛ کون سا اعزاز تھا جو ان کا مقدر نہ ہوا تھا اور نہیں جانتے کہ اعلیٰ ترین صدارتی ایوارڈ پا لینے کے بعد آنے والے دنوں میں اور کیا کچھ اس شاعر کا مقدر ہونے والا ہے۔

ذرا تصور کیجئے ایک ایسے بچے کا جو ایک ہی وقت میں قسمت کے وہیل چکر کا کچلا ہوا بھی ہے اور اسی قسمت کے کندھوں کا سوار بھی۔ قیام پاکستان سے تین سال پہلے ایک ایسی ماں کی گود میں اترتے والا بچہ جس کے بارے میں قرۃ العین حیدر نے ”کار جہاں دراز ہے“ میں لکھا تھا کہ ”وہ لکھنوی تہذیب کی شیریں سخن نمائندہ تھی“ اور ساتھ ہی اس تکلیف دہ حقیقت کا بھی گماں باندھیے کہ اس بچے کے والدین میں علیحدگی ہو جاتی ہے اور بچے کی تربیت نانا کے ہاں ہونے لگتی ہے۔

جی، وہ نانا جو سگے نہ تھے۔ یہی نانا اس بچے کے لیے وسیلہ خیر ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسا گھر جس میں بجلی نہ تھی، چراغ کی روشنی میں تب تک یہ بچہ کتابیں پڑھتا رہتا جب تک دیے میں تیل ہو تا۔ اور تیل بھی اتنا کہاں میسر ہوتا تھا کہ دیا ساری رات جل پاتا۔ شعلہ پھڑپھڑا کر بجھ جاتا، دیا سو جاتا مگر وہ بچہ جاگتا رہتا تھا۔ کیسے سوتا کہ اس کو پڑھنے کی تاہنگ جگائے رکھتی تھی۔ وہ اندھیرے کا لحاف اوڑھے اوڑھے سبق دہراتا رہتا یہاں تک کہ نیند خود آگے بڑھ کر اسے اپنی گود میں لے لیتی تھی۔

والد کی شفقت سے محروم اس بچے کے بارے میں ممتاز مفتی نے لکھا تھا: ”لکھنو کا لاوارث، مفلس، ٹوٹا ہوا بچہ جس میں چشمہ خریدنے کی توفیق نہ تھی، کتابیں خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔“ یہ بچہ جن حالات میں بڑا ہوتا ہے، جدید اردو شاعری کی توانا آواز بنتا ہے، ریڈیو ٹی وی سے ہوتا برطانیہ کے اردو مرکز مرکز پہنچتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فاونڈیشن، مقتدرہ قومی زبان جیسے اداروں کا سربراہ بنتا ہے۔ ایران میں ایکو کے ثقافتی شعبے کا نگران ہو کر پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔

نشان امتیاز، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس ایک ایک کر کے سب ایوارڈ لے لیتا ہے۔ اس کی بھی عجب کہانی ہے۔ یقیناً آپ جان گئے ہوں گے کہ یہ عجب کہانی کسی اور کی نہیں افتخار عارف کی ہے۔ افتخار عارف کی کہانی کا ایک اور رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ جیسے جیسے انہیں عروج ملتا گیا، وہ اپنے دشمنوں میں ایک معقول تعداد کا اضافہ بھی کرتے گئے۔ اس سارے صورت حال کا انہیں بھی ادراک رہا اور شاید وہ اس ساری صورت حال سے لطف بھی لیتے رہے ہیں۔ تب ہی تو وہ کہہ رہے ہیں :

جس دن سے ہم بلند نشانوں میں آئے ہیں
ترکش کے سارے تیر کمانوں میں آئے ہیں

واقعہ یہ ہے کہ دوست ہو یا دشمن سب افتخار عارف کی قسمت پر رشک کرتے ہیں ان کی صلاحیتوں کو مانتے ہیں۔ جی وہ بھی جن کے ترکش کے سارے تیر انہیں دیکھتے ہی کمانوں میں آ جاتے ہیں، وہ بھی۔ لطف یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں کتاب سے، اور لفظ سے، زمین سے اور اپنے ایمان سے وہ جڑے رہتے ہیں۔ افتخار عارف کا کہنا ہے

ایک چراغ، اور ایک کتاب، اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد جو کچھ ہے وہ افسانہ ہے

کتاب، چراغ، امید کے اثاثے کی بات اور زندگی کا سارا افسانہ سنانے والا یہ شاعر اسی برس کا ہو چکا ہے۔ پانچ سال پہلے آکسفورڈ پریس والوں نے اپنے اسلام آباد لٹریچر فیسٹول میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، اس میں مجھے ان سے مکالمہ کرنا تھا اور میری مدد کو جو موجود تھے وہ سب افتخار عارف کو محبوب رکھنے والے تھے ؛اینا سووروا، جو حال ہی میں وفات پا گئی ہیں، ڈاکٹر وفا یزدان منش اور حارث خلیق۔ جب افتخار عارف لندن میں تھے۔

تب ان کی 33 نظموں کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب ”بارہواں کھلاڑی“ (The Twelfth Man) آئی تھی۔ اس کتاب میں اینا سووروا کا بھی ایک نوٹ شامل ہے۔ افتخار عارف کی نظموں کا یہ ترجمہ برونڈا واکر نے کیا تھا۔ جب کتاب آئی تب اینا سووروا اکیڈمی آف سائنس ماسکو کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل سٹڈیز میں پروفیسر تھیں پھر وہ وہاں ایشین لٹریچر کی ہیڈ ہو گئی تھیں۔ برصغیر ہند و پاک میں اردو ادب اور آرٹ کی روایت سے خوب آگاہ تھیں اور دنیا بھر کے مختلف فورمز پر اس موضوع پر گفتگو کرتی رہتی تھیں۔

افسوس ہم نے اردو سے محبت کرنے والی کو کھو دیا۔ خیر، میں بتا یہ رہا تھا کہ انہوں نے اس موضوع پر بہت لکھا بھی ہے۔ مثنوی اور صوفیانہ روایت ان کے پسندیدہ موضوعات تھے جن پر ان کی کتب شائع ہو چکی ہیں منٹو، قرۃ العین حیدر سے افتخار عارف تک رشین لینگویج میں تراجم کیے اور حکومت پاکستان نے انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز دیا تھا۔ افتخار عارف پر بات کرتے ہوئے لگ بھگ انہوں نے وہی باتیں دہرائیں جو وہ اپنے نوٹ میں بتا چکی تھیں اور میں سمجھتا ہوں یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو افتخار عارف کی شاعری کا اسلوب ڈھالتی ہیں۔

یہی کہ افتخار عارف کی شاعری اکہری نہیں تہ دار ہے، اپنی تہذیبی روایت اور بہ طور خاص کربلا کا استعارہ ان کے ہاں زندگی کی گہری معنویت پاکر نئے زمانے سے جڑ جاتا ہے اور یہ بھی کہ بارہواں کھلاڑی کی نظم ایک خاص صورت حال میں پڑے نئے عہد کے نئے آدمی کا المیہ ہے۔ اینا سووروا جب اپنی بات کر رہی تھیں تو رہ رہ کر میرا دھیان ان تہذیبی حوالوں کی طرف جا رہا تھا جن سے ان کی شاعری بامعنی ہوتی ہے اور مختلف بھی۔ اتنی مختلف کہ وہ اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ دھج رکھنے لگتے ہیں۔

میں غزل کو تہذیبی صنف سمجھتا ہوں اور غلط یا صحیح اس بات پر ایقان رکھتا ہوں کہ اس صنف کی ایسے بے توفیق شاعروں سے بنتی ہی نہیں ہے جو اپنے تہذیبی حوالوں سے بچھڑ گئے ہوتے ہیں۔ ستر کی دہائی کے جن شاعروں کے ساتھ افتخار عارف نے اپنا سفر آغاز کیا تھا ان میں سے جو بچ رہے ہیں وہ سب وہی ہیں جنہوں نے اپنے تہذیبی ’فکری اور جمالیاتی ورثے سے دست کش ہونا گورا نہیں کیا۔ افتخار عارف کی ”مہر دو نیم“ سے‘ ’حرف باریاب ”،“ جہان معلوم ”اور“ باغ گل سرخ ”کی شاعری میری نگاہ میں ہے وہ جس وضع کی فضا میں اپنے تخلیقی وجود کو رکھتے رہے ہیں، اس نے اردو شاعری میں مذہبی استعاروں کے حرکی تصور کے لیے فضا باندھ کر رکھ دی ہے :

خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوک سناں پر سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
۔
اپنے اپنے زاویے سے اپنے اپنے ڈھنگ سے
ایک عالم لکھ رہا تھا داستان کربلا
۔
ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں
وہ ایک قطرہ خوں جو رگ گلو میں ہے
۔
دل اس کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ
یہ سلسلہ بھی بہت ابتدا کا لگتا ہے

بات چل نکلی تو میں نے افتخار عارف کے تخلیقی وجود کے دوسرے اہم حوالے ہجرت کو بھی یاد کیا۔ ہجرت یا دربدری کا احساس۔ مجھے پوچھنا پڑا تھا کہ افتخار عارف صاحب! آپ کے ہاں ہجرت کا وہ احساس کیوں نہیں ہے جو انتظار حسین کے ہاں تھا؟ اس مرحلے پر میں نے انتظار حسین کی اس گفتگو کی جانب توجہ چاہی تھی جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ انہوں نے اپنی ہجرت کو بڑے معنی پہنانے کے لیے اپنی تاریخ کی اس مقدس ہجرت کی طرف دیکھا تھا اور اس سے جوڑ کر اپنی ہجرت کو سمجھنا چاہا تھا۔ میرا پوچھنا تھا کہ آپ کی ہجرت دربدری کیوں ہو گئی؟ پھر یہ نان و نمک کی طلب میں مارے مارے پھرنے کی ذلت اور اذیت سے جڑ کر اور بھی شدید تر لگتی ہے۔ یہ سوال میرے ذہن میں یوں آیا تھا کہ افتخار عارف کی نظم ”یاسریع الرضا اغفرلمن لا یملک الالدعا“ کا ایک ٹکڑا میرے ذہن میں گونجنے لگا تھا:

”یہ دنیا اک سور کے گوشت کی ہڈی کی صورت
کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے
اور میں نان و نمک کی جستجو میں در بدر قریہ بہ قریہ مارا مارا پھر رہا ہوں
ذرا سی دیر کی جھوٹی فضیلت کے لیے
ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں ’ہر قدم پر منزل عز و شرف
سے گر رہا ہوں۔ ”
یہیں دھیان افتخار عارف کے ضرب المثل بن جانے والا شعر کی طرف گیا تھا:
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخار عارف نے اس باب میں جو کہا وہ بھی سمجھ میں آنے والا ہے۔ وہ جب پاکستان آئے تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ پاکستان بنتے وقت وہ اتنے چھوٹے تھے کہ اکیلے نہیں آسکتے تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1965ء میں جب وہ پاکستان پہنچے تو یہاں لوگوں کے سارے روشن خواب دھندلے پڑ رہے تھے۔ تاہم وہ ان خوابوں سے افتخار عارف جڑے رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا:

”یہ جو گھر کا مسئلہ ہے اس کی کئی جہتیں ہیں۔ میں لکھنو سے کراچی آیا تھا اور پھر کراچی سے لندن چلا گیا۔ یہ دو بالکل مختلف تجربے ہیں۔ لکھنو سے کراچی آنا اور یہاں سے لندن جانا یہ ہجرت کا تجربہ بھی ہے اور دربدری کا تجربہ بھی۔“

اسی مرحلے پر انہوں نے یہ اضافہ بھی کیا تھا کہ

”ہجرت محض ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف جانے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک نظریے سے دوسرے نظریے کی طرف جانے کا بھی نام ہے۔ تارکین وطن میں اور مہاجروں میں فرق ہوتا ہے۔ مہاجر کسی مقصد کے تحت نکلتا ہے کسی آدرش کے تحت جاتا ہے۔ چراگاہوں کی تلاش میں جانے والے لوگ کسی اور طرح کے ہوتے ہیں۔“

حارث خلیق اردو انگریزی کے شاعر ہیں اور نئی نسل کے نمایاں ترین نظم نگاروں میں شمار ہوتے ہیں، انہیں مکالمہ کرنا خوب آتا ہے انگریزی اخبارات میں مسلسل کالم لکھتے ہیں اور سیکرٹری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ہیں۔ میں ان کی ”ڈومنی“ ، ”عشق کی تقویم“ ، ”انیائے“ ، ”ورلڈ بنک“ ، ”رضیہ سلطانہ کورنگی ’کے‘ ایریا“ جیسی نظموں کا اس لیے عاشق ہوں کہ وہ اپنی نظموں کو کرداری کہانی بنا کر جو کہنا چاہتے ہیں، یوں کہتے ہیں کہ ساری کہانی پڑھنے والے کے لہو میں گونجنے لگتی ہے۔ حارث کا کہنا تھا کہ افتخار عارف کے ہاں محض کربلا نہیں ہے عید غدیر بھی ہے۔ ان کے ہاں علم کا اور انقلاب کا ایک جشن بھی ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی یہ کہتے تھے۔ کربلا سے معاملہ محض ماتم گساری کا نہیں ہے بلکہ انقلاب کا ہے اور افتخار عارف کے ہاں یہی ہوا ہے۔ ”

تاہم حارث خلیق نے تاہم کہہ کر یہ اضافہ بھی کیا:

”میرے خیال میں افتخار عارف کی شاعری نظریاتی شاعری نہیں ہے۔ یہ تہذیبی شاعر کی شاعری ہے۔ اور اس میں تفریق کرنا بہت ضروری ہے۔ کچھ شاعر جمالیاتی ہوتے ہیں جن کے لیے جمالیات کی اہمیت نظریے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جمالیات کے بغیر شاعری ہوتی بھی نہیں۔ مگر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو جمالیات اور نظریات کا ایک مرکب بنا کر ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔ ایک نظریاتی شاعری بھی ہوتی ہے۔ یہ لمحاتی شاعری ہو کر بھی بہت اہم ہوتی ہے۔

مگر ایک سولائزیشنل پوئٹ ہوتا جس کے ہاں روایت اور تہذیب سے استعارہ جنم لیتا ہے اور افتخار عارف ایک تہذیبی شاعر ہونے کی اس عہد میں روشن ترین مثال ہیں۔ یہ آپ کو کہیں اور بہت کم نظر آئے گا کہ لوگ اس منزل پر پہنچنے سے پہلے رک جاتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ان کے ہاں کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں ہے، جو ان کا ایمان ہے، جو ان کی فکر ہے وہ اسی طرح آپ کے سامنے آتی ہے جیسے کہ وہ ہے۔“

حارث خلیق کا تجزیہ میرے دل کو لگا تاہم جب وہ افتخار عارف کی شاعری کو نظریاتی شاعری ماننے سے انکار کر رہے تھے تو مجھے ان کی اوپر کہی گئی دوسری بات کے علاوہ شاعری بھی یاد آ رہی تھی جس میں ایک نظریہ اور ایک فکر بولتی ہے۔ یہ سب کچھ زبان کی تہذیب کے اندر اور ایک خاص قرینے سے ہوتا ہے۔ یہ ایسا قرینہ ہے جو صرف افتخار عارف سے مختص ہے۔ یہ قرینہ یا اسلوب بامعنی تراکیب سازی کے ہنر سے تجسیم پاتا ہے۔ لفظوں کی نشست کو دھیان میں رکھ کر اصوات کے نظام کی تعمیر اور مصرع بنا کر اس میں ایک عجب اور تازگی بپا کر دینے کی توفیق نے اسلوب میں اور نکھار پیدا کیا ہے۔

جمالیاتی چھوٹ کے ہمراہ معنیاتی دبازت اور مابعد کے مصرع سے اس کے زندہ اتصال و انسلاک سے ایک ہی وقت میں خیال کی احساس کی سطح پر ترتیب اور محسوسات سے فکریات کے تھرکتے ہوئے نکلنا افتخار عارف سے منسوب اسلوب کا خاصہ ہو گئے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے فیض احمد فیض نے افتخار عارف کا پہلا دیوان ”مہر دو نیم“ دوبارہ پڑھنے کے بعد کہا تھا : ”جس طرح صحیح انصاف کے لیے لازم ہے کہ وہ منصفانہ ہو اور نظر بھی آئے شاعرانہ تجربے کے لیے لازم ہے کہ وہ شاعرانہ ہو اور شعریت نظر بھی آئے۔“ تو یوں ہے کہ شعریت کی لپک ان کے ہاں اپنی فکر اور اثر انگیزی کے وصف کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر وفا یزدان منش تہران یونیورسٹی ایران کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ فر فر اردو بولتی ہیں کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ فارسی سے اردو اور اردو سے فارسی میں تراجم کرتی رہتی ہیں۔ جب افتخار عارف، ایکو سے منسلک ہو کر ایران میں تھے تو وفا یزدان کی ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ انہوں نے اس زمانے کو یاد کیا اور بتایا تھا کہ افتخار عارف کی شاعری وہاں فارسی میں ترجمہ ہو کر مقبول ہوئی اور یہ بھی کہ ان کی علمی گفتگو سننے کو لوگ اپنی سماعتیں بچھائے رکھتے تھے۔

کچھ دن پہلے جب وہ آرٹس کونسل راولپنڈی میں گفتگو کر رہے تھے غزلیں اور نظمیں سنا رہے تھے اور ہم لوگ اپنی سماعتیں بچھائے ہوئے تھے تو دعا گو بھی تھے کہ افتخار عارف اور جئیں اور شعر کہتے رہیں۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments