دارا شکوہ کے مذہبی، سماجی نظریات اور دور حاضر


دارا شکوہ گوتم بدھ کے ہندوستان کا باسی تھا۔ راگ وید، سام وید، یجر وید، اتھرو وید اور مہا بھارت کے پڑھنے والوں کے درمیان زیست کے ماہ و سال گزار رہے تھے۔ ایک طرف آپ خدا کے عرفان حاصل کرنے کی سعی و جستجو کے آرزو مند تھے تو دوسری طرف آپ مذہبی ہمہ گیریت کے قائل تھے۔ اس کے باوجود کہ کچھ ہی عرصہ پہلے مجدد الف ثانی نے مذہبی ہمہ گیریت کے خلاف جلال الدین اکبر پر فتوی دیا تھا۔ لیکن دارا شکوہ نے وجودی نظریات پر اپنی زندگی کو استوار کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ توحید بگویم ار بھفمی یارا موجود نبود، ہیچ گھہ غیر خدا این ہاکہ تو بینی وھمی دانی غیر درذات ہمہ یک است درنام خدا توحید کے بارے میں بتاتا ہے کہ دنیا خدا ہر جگہ موجود ہے، جن کو تو غیر سمجھتا ہے یہ سب خدا ہی ہے مگر مختلف ناموں سے۔ تصوف کے ساتھ ساتھ آپ مختلف سماجی تصور کے بھی قائل تھے یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک سماجی صوفی دانشور تھے۔ آپ نے کئی کتابیں لکھیں اور کئی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا۔

داراشکوہ کے سماجی اور مذہبی افکار و نظریات کیا ہے؟ 21 ویں صدی میں دارا شکوہ کے صوفی اور سماجی افکار و احوال کا مطالعہ آج کیوں ضروری ہیں؟ دارا شکوہ کے مذہبی اور سماجی افکار عصر حاضر سے کیا مطابقت رکھتا ہے؟ اس پر لکھنا وقت کی ضرورت اور برصغیر کے مذہبی سماج کا تقاضا ہے۔ کہ دارا کی مذہبی ہمہ گیریت اور سماجی افکار کو ہر محفل، بزم میں سخن آرائی کر کے پرامن مہذب اور انسان دوست سماج کی تشکیل کیا جا سکے۔

دارا شکوہ ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے درمیان آمن وآشتی قائم کرنا چاہتے تھے۔ آپ صلح کل کے حامی اور مصلحت دید تھے۔ تاکہ مذہبی بنیادوں پر جبر و تشدد، تنفر و ناگواری نہ ہو۔ سماج نفرت آلود نہ ہو۔ ہر طرف میل ملاپ، مصالحت اور ایک دوسرے کے درمیان اخلاص ویارانہ ہو۔ آپ لکھتے ہیں توحید گزین وصلح کل پیش بگیر بگزار تعصب کہ بود مذہب ہیچ آپ وحدت الوجود کو مد نظر رکھ عمومی دعوت ہے صلح کل کیجئے۔ یعنی خدا کو تمام مذاہب میں مرکزی نقطہ پر جمع کرنا چاہتے ہیں۔

 دارا شکوہ کا مذکورہ شعر آج کے تمام سماجی اور مذہبی مسائل کو حل کرنے کا گر فراہم کرتا ہے۔ صرف اس شعر میں توحیدی مرکز کو مدنظر رکھ کر صلح کل کے بنیاد پر اگر آج کے جمہوری دور میں عمل کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ دنیا کے تمام اقوام کے درمیان آمن اور سکون آ جائے گی۔ مذہبی بنیادوں پر تمام لڑائیاں ماضی بن جائے گی۔

گنگا کے پانی سے بنی سیاہی سے لکھے دارا کے الفاظ ہمارے لیے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ بجز حق کفر و ایمان و مذاہب شما چوں قادریؔ برباد سازید ترجمہ:خدا کو چھوڑ کر کفر و ایمان اور مذہب کی بحث میں الجھنا؟ ، تم بھی داراشکوہ قادریؔ کی طرح خود کو برباد کر ڈالو گے۔ دارا کا مذہبی ابحاث پر نکتہ نظر مذکورہ بالا شعر میں ہمیں بتاتا ہے کہ اگر کفر، ایمان اور مذہب کے مناظرے، ابحاث میں الجھے، تو دارا کی مانند برباد ہو جاؤں گے۔

آج ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا مسئلہ جو ہمیں درپیش ہیں وہ مذہبی بنیاد پر لڑائیاں ہیں کفر اور ایمان کی کہانیاں ہے مذہب کی بحث ہیں۔ جس نے ہزاروں ہا گھروں کو اجاڑ پجاڑ کر پھاڑ دیا۔ کفر کفر کے کھیل میں شیعہ، سنی، بریلوی، اہل حدیث اور سنیوں کے درمیان جو لڑائی ہوئی، جس کو آج یاد کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ مذہب کے نام پر کئی دہائیوں سے الجھے قوم نفسیاتی طور پر آئی سی یو میں بیڈ پر پڑا ہے۔ عدم برداشت ہے روزانہ مذہبی بنیاد پر قتل عام ہو رہا ہے۔

کہیں مشال خان آنکھیں بند کیے گوتم بدھ کے وطن مردان میں مردہ پڑا ہے تو کہی فنون لطیفہ کے مرکز عارف صدرا کا ایران میں مخسہ امینی مذہب کی بھنٹ چڑھ چکی ہیں یا رویا خشماتی سینکڑوں کوڑیں مار کھانے پر مجبور کرواتی ہیں یا بدخشان کے لعل اور انار کے رنگوں کے وطن میں بدھ کے مراقبہ اور زردشت کے پیروکاروں کے وطن میں مذہبی لڑائیوں میں اس قدر آنسو بہہ گئے، جس سے دوسرا دریائے آمو بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں داراشکوہ کا یہ شعر ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

دارا شکوہ سیاسی اور سماجی حوالے سے بھی صلح کل کے قائل ہیں، آپ کے نظریات لبرل سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ تمام مکاتب فکر اور مختلف الخیال لوگوں کو امن سے ایک دوسرے کی گفتگو سننے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ مختلف مذاہب کے درمیان مشرکات کی تلاش میں تھے تاکہ کسی طور ان مذاہب کے درمیان امن واشتی اور سکون کا ماحول بن جائے۔ تمام مذاہب کو برداشت کیا جائے، تاکہ ملک میں سیاسی امن ہو۔ اس لیے کہتا ہے کہ عارف بہ بیان وحدتش نابست یعنی خدا کے عرفان حاصل کرنے والوں کے بیان میں وحدت کی شراب ہے۔

آپ کے ہاں سب کو سیاسی طور پر امن کا درس ملتا ہے۔ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ ساقی بہ کسی کہ داد جامی زالست از عجب وریا و وھم ہستی چون است ساقی نے پلایا جو کبھی جام الست یہ وہم و فریب اور تکبر یعنی دارا یہاں سماجیات کو انتہائی گہرائی کے ساتھ دیکھا اور پرکھا ہے کہ یعنی جس نے ازل میں جام الست پی لیا۔ یعنی اپنی زندگی کے بارے میں سوچا، یعنی کہ انسان کیا ہے؟ میں کیا ہوں؟ میں کون ہوں؟ دوسری طرف ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں ازل میں خدا سے جو وعدہ کیا تھا کہ خدا ہمارا رب ہے۔

یعنی جس نے عرفان حاصل کیا۔ ان میں سماجی برائیاں جیسا وہم و فریب غرور و تکبر ختم ہو جائے گا۔ انسان میں عجز و انکساری آ جائے گی۔ عرفان کا تصور ہندوستان کے تمام مذاہب میں قریب قریب مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ کوئی یوگا کہتا ہے تو کوئی مراقبہ! یہ مشترکہ چیزیں ہے جو سماجی بنیادوں پر دارا کے مطابق ہمیں امن سے جینے اور ایک دوسرے کو عزت اور احترام سے جینا سکھاتا ہے یہی عمل ہے جو ہمیں سماجی برائیوں سے دور رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments