غریب کی مالداری!


اس منظر کو ملاحظہ کیجئے،

ایک بھائی جو شکل و صورت اور لباس سے مزدور لگ رہا تھا آلتی پالتی مار کر بیٹھے کھانا تناول فرما رہے ہیں۔ سامنے ایک بڑے سائز کے برتن میں غالباً بھینس کے پائے کا لیس دار شوربا بمع گوشت اور نلیاں پڑا ہوا ہے۔ بھائی صاحب نے سب سے پہلے بڑی گودے والی ہڈی بڑے سلیقے کے ساتھ اٹھائی اور پھر اس کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کلائی سے زیادہ چوڑی ہڈی کا بھاری سر سیدھے ہاتھ کی انگلیوں میں دبا کر کلائی کو الٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر زور دار جھٹکا دیا تو مخ/ گودے کا ایک بڑا ٹکڑا اور ساتھ ہڈی بھی ہاتھ سے نکل کر غڑاپ سے شوربے میں گری اور چھینٹے سیدھے ان کے کپڑوں سمیت ادھر ادھر لگ گئے۔

بغیر کسی کے پرواہ کے نلی کو دوبارہ اٹھا کر منہ میں رکھا اور ہونٹوں کو زور سے دبا کر لمبا سانس کھینچتے ہوئے باقی بچا گودا سیدھے حلق سے نیچے اتارا اور پھر پورے اطمینان کے ساتھ ہونٹوں پہ زبان کو پھیرنے اور ایک عدد ڈکار لینے کے بعد روٹی کے بڑے بڑے ٹکڑے شوربے میں ڈال دیے اور خوب مکس کر کے ہپر ہپڑ کر کے کھانا تناول اور آخر میں پورے برتن کو اٹھا کر منہ سے لگایا اور غٹا غٹ لیس دار شوربا بمع قیمتی ترین مواد کے نوش فرمایا اور ایک بڑا ڈکار لے کر الحمدللہ کہا۔

ہمارے ساتھ بیٹھے ایک بڑے صاحب پورے انہماک کے ساتھ یہ منظر ملاحظہ فرما رہے تھے، بھائی کے الحمدللہ کہنے کے ساتھ ہی فرمایا،
”ظالم کے بچے کھاتے کیسے ہیں“

ہم تو چند نوالے کھاتے ہیں اور وہ بھی بغیر نمک اور روغن کے اور آدھ کپ چائے بغیر میٹھا کے۔

زندگی تو ان لوگوں نے گزاری اور خوب گزاری۔ کھانے کو دیکھ لیجیے، روغن سے بھرپور نہ نمک کی پرواہ اور نہ گوشت سے پرہیز اور نہ چینی کمی زیادتی کوئی مسئلہ۔

عرصہ ہوا کہ ہم پیٹ بھر کے اچھا کھانے کے لیے ترس رہے ہیں۔

مزدور بھائی،
استحصالی نظام کی مار اپنی جگہ لیکن جتنا بھی ملتا ہے اور جس بے نیازی اور بے فکری سے کھاتے اور کھلاتے جا رہے ہو اسی پہ رب کا شکر ادا کیجیے۔ بہت سارے بڑے بڑے بلکہ بڑوں کی اکثریت اچھا لباس ضرور زیب تن کیے ہوتے ہیں لیکن وہ رب کی عطاء کردہ بے شمار نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ نس نس میں بیماری ہوتی ہے، جسم بے آرام ہوتا ہے، دل بے قرار رہتا ہے اور روح بے چین۔

اے سی کی بھر پور ٹھنڈک اور آرام دہ بیڈ پہ پڑے نیند کی گولیاں کھا کے بھی کروٹیں بدل بدل کر دو ساعتوں کی نیند پانے کے لیے بے قرار اور تڑپ رہے ہوتے ہیں۔

یہ جو دن بھر جان توڑ مشقت کر کے حلال کی روزی کما کے بچوں کے ساتھ کھا کے، بے شک دو تین نوالے ہی سہی اور پھر دنیا و مافیہا سے بے خبر خراٹے لے کر نیند کی وادی میں جا بستے ہو، یہ بڑی قیمتی ترین متاع ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ یہی دراصل رب کی عطاء ہے، رحمت و برکت ہے اور فضل وکرم ہے۔

رزق نہ صرف دال روٹی اور مال و دولت ہے اور نہ برکت اس میں ظاہری اضافہ بلکہ رزق اور برکت بہت وسیع مفہوم رکھتے ہیں اور جسے نصیب ہو جائے وہ بخوبی اس کا احساس کر سکتے ہیں۔

عزت، قناعت، خود داری، سکون، اطمینان، اولاد، عمل، پاکیزگی اور صبر و شکر سب رزق ہیں اور برکت کے مظاہر ہیں۔

جنھیں اس سے نوازا گیا وہ دنیا کا مالدار ترین انسان ہے اور درحقیقت وہ خوشحال زندگی کا خوگر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments