کیا ڈانسنگ گرل سمبارہ موہنجو داڑو واپس آنا چاہے گی؟


مستنصر حسین تارڑ صاحب نے “ہم سب” پر کالم لکھا کہ ڈانسنگ گرل آف موہنجو ڈارو، واپس بھجوا دو انہوں نے لکھا کہ وہ اس حوالے سے ہندوستانی حکومت پر ایک مقدمہ دائر کرنا چاہتے ہیں۔ ڈانسنگ گرل جس کو انہوں نے اپنے افسانے میں سندھیا کا نام دیا مگر سندھی لوگ اسے سمبارہ کے نام سے جانتے ہیں۔ موہن جو داڑو کی تہذیب جس کو وادی سندھ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔  آج سے تقریباً پانچ ہزار سال پہلے یہ شہر تہذیب و تمدن کے اعتبار سے عروج پر تھا۔ جس کی تجارتی کشتیاں راوی اور سندھ کے پانیوں پر سفر کرتے ہوئے مصر تک جاتی تھیں جس کا تذکرہ تارڑ صاحب نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ موہن جو داڑو کی وجہ سے سوبھوگیان چندانی کو، رابندرناتھ ٹیگور نے موہن جو داڑو کا ماںھو کا لقب دیا مگر افسوس صد افسوس کہ نہ ہم موہن جو داڑو کا خیال رکھ پائے نہ ہی سوبھو گیان چندانی کے علم و ادب سے کچھ سیکھ پائے۔

 آفرین ہے مستنصر حسین تارڑ صاحب پر جنہوں نے ماضی کا یہ قصہ کچھ یوں بیان کیا ہے کہ 1947ء کے لگ بھگ دلی میں وادی سندھ کی تہذیب اور موہنجو داڑو کے حوالے سے نوادرات کی ایک بین الاقوامی نمائش کا انعقاد ہوا۔ پورے ہندوستان سے اس تہذیب کے نمونے منگوائے گئے اور ان میں ڈانسنگ گرل کا مجسمہ بھی تھا۔ اُنہی دنوں برصغیر تقسیم ہو گیا اور وہ وادی سندھ کی تہذیب کی سب سے بڑی پہچان، بالشت بھر کی رقاصہ وہیں دلی رہ گئی۔ کبھی واپس اپنے موہنجو داڑو نہ آئی۔ ہندوستان نے اُسے واپس نہ کیا۔ اس قصے کا بہت ہی کم لوگوں کو پتہ ہے اور اب دوبارہ تارڑ صاحب کے کالم نے سمبارہ کو یاد کرا دیا ہے ورنہ ہم نے تو موہن جو داڑو کو صرف مرے ہوؤں کا داڑا ہی بنا دیا ہے۔ اگر موہن جو داڑو کسی قدر و قیمت جاننے والے ملک میں ہوتا تو یقیناً یہ دنیا کا ایک عجوبہ ہوتا۔ مگر ہم نے تو اسے سیم و تھور کے حوالے کر دیا ہے۔

آج بھی موہن جو داڑو کو دیکھ کر لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ 5 ہزار سال پہلے کس طرح ان تہذیب یافتہ لوگوں نے ایک ترقی یافتہ شھر بنایا جہاں نکاسی آب، برتن، زیورات، مارکیٹ، کنویں، اجناس، تالاب، اسکول، عبادت گاہ سے لیکر زندگی کی ہر سہولت میسر تھی۔ جنھوں نے تار کول سے لیکر پکی اینٹ تک کا استعمال کیا جو آج بھی سالم ہے۔ جنھوں نے کپڑے کے استعمال سے لیکر کھیتی باڑی اور تجارت کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ بادشاہ کے مجسمے پر اجرک کی پوشاک اور خط شدہ داڑھی اور ڈانسنگ گرل کا رقص والا مجسمہ حیران کن ہے۔

1980 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ موہن جو داڑو جو سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔ رہی سہی کسر بلاول بھٹو نے موہن جو داڑو پر سندھ فیسٹیول کرکے پوری کر دے اور بتا دیا کہ ہمیں اپنی تہذیب سے کتنا پیار ہے۔ بقول معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر غلام مصطفی شر، موہن جو داڑو پر پیپلز پارٹی کا جلسہ عام موہن جو داڑو کے ساتھ مذاق اور ایک زیادتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1983 میں ساؤتھ ایشین بین الاقوامی آرکیالاجیکل کانفرنس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ سندھ کے اس تہذیب کو موھن جو داڑو کہا جائے گا اس لیے اس تاریخی مقام کو موئن جو داڑو (Mound of the Dead Men) نہ کہا جائے۔ اور سندھی زبان میں موھین کا مطلب ہے سامنے والا یا پھر بڑے دروازے والا قدیم سندھی زبان میں موہن کا مطلب تھا وطن پر قربان ہونے والا اس لیے اس تاریخی مقام کو موھن جو داڑو ہی کہا جائے۔

فروری 2017 میں موہن جو داڑو پر بیں الاقوامی کانفرنس جب منعقد ہوئی تو یونیسکو والے حیران و پریشان ہو گئے کہ موہن جو داڑو پر استعمال ہونے والے فنڈز اس پر لگنے کے بجائے کہاں جا رہے ہیں۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں صرف ایک نیا تحقیقاتی مقالہ پڑھا گیا اور مقامی لوگوں نے اس کانفرنس کو کانفرنس کم، پیپلز پارٹی کا جلسہ زیادہ قرار دیا۔

 موہنجو داڑو کی مہروں سے لیکر ہر اصلی چیز عجائب گھر سے چوری ہو چکی۔ موہن جو داڑو پر پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ ایران کی گل جی کی عکس کردہ یادگار تصاویر موجو د ہیں مگر افسوس کے ان پر بھی زنگ لگ چکا ہے۔ مجھے یاد ہیں میرے بچپن کے وہ دن جب ہم موہن جو داڑو جایا کرتے تھے اور وہاں انگریز، فرنچ اور جرمن سیاح آتے تھے ہم ان کو دیکھ بڑے خوش ہوا کرتے تھے وہ ہماری تصاویر بنایا کرتے تھے۔ اب وہ دن کہاں۔ موہن جو داڑو کی تاریخی زمین پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔ نہ سیاحوں کے لیے سہولت نہ سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات۔ صرف کبھی کبھار جب سندھ حکومت جاگتی ہے تو بیان دے کر پھر سو جاتی ہے۔ سیم و تھور کے خاتمے کے لیے جو ٹیوب ویل ماضی میں چلا کرتے تھے اب وہ صرف فائلوں میں چلتے ہیں۔ موہن جو داڑو کی جو رونقیں ماضی میں نظر آتی تھیں اب وہ صرف خوابوں میں ہی نظر آتی ہیں۔ ہم نے تو پورے سندھ ہی کو موئن جو داڑو بنا دیا ہے۔

اگر اب سمبارہ ڈانسنگ گرل ہندوستان سے واپس آ بھی جائے تو یقیناً وہ موہن جو دڑو کے حالات دیکھ کر واپس چلی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).