چاند پر واقع پنجابی کالج کا حال


مجھے ہر وہ وقت دلچسپ لگا کرتا ہے جو زندگی کے معمولات میں تبدیلی لائے۔ 2012 کا سال بھی کچھ ایسا تھا، گھر میں ایک بحث چل رہی تھی کہ لیکچرار کے طور پرڈیپارٹمنٹ نے جہاں مجھے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا وہاں میرا گزارا مشکل لگتا تھا، ٹھانی تو یہی تھی کے جگہ دیکھ کر مڑآوًں گی 140کلومیٹر دورجب پہاڑوں اورپرسکون ماحول کا سلسلہ شروع ہوا تو خرافاتی ذہن جوایننگ کے حق میں دلیلیں دینے لگا اور کالج دیکھ کر تو لگا یہ تو کہیں پہلے سے ہی میری سوچ میں تھا۔ ایسا لگتا تھا کالج کو پہاڑوں نے اپنی گود میں لے رکھا ہے۔ ٹھنڈی پرسکون ہوا جسم سے ٹکرا کے اسے ہلکا پھلکا کر رہی تھی، پرنسپل بھی اپنایت سے ملیں اور میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

کالج میں چار مزید ریگولرلیکچرار کے آنے سے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ کالج میں کل تعداد 600 کے لگ بھگ تھی۔ تقریباً 15سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پرآڑہ بشارت گاؤں تھا، پرنسپل کے ہمرا وہاں ایک کالج جانے کا اتفاق ہوا، جہاں گاؤں کی آبادی ختم ہوتی تھی وہاں سخت جھاڑی دار پودے تھے، مٹی کی ہئیت بھی عجیب تھی۔ پتھروں اور پہاڑوں کی ساخت دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ حصہ نظام شمسی میں کسی سیارے یا چاند سے نیا نیا الگ ہو کر ابھی زمین کا حصہ بنا ہے۔ سنسان بیابان۔ جنگل جیسا تو نہیں پر چاند جییسا کچھ ضرور تھا!

کالج تک پہنچتے گاڑی 180ڈگری کے زاویے پر گھومتی رہی تھی اور چکرا چکرا کے آنکھیں اپنی حدود سے باہر نکلنے لگیں تھیں، سناٹا اتنا تھا کہ گیٹ کھلنے کی چرچراہٹ میلوں تک سنائی دی گئی ہو گی، جھاڑی نما درختوں سے پرندے نما جانداروں کے لرزنے کی آوازیں بھی محسوس ہوئیں۔ کالج جدید طرزتعمیر کا نمونہ تھا۔ فرنشڈ لیبز، بڑے بڑے کمرے، خوبصورت بلاک۔ پورے علاقے کا پانی شدید زہریلا تھا، ایک بوند بھی قابل استعمال نہیں تھی، زمین پر کوئی پودا نہیں لگتا کیونکہ آس پاس کوئلے کی کانیں ہیں، کسی بھی موبائل نیٹ ورک کی سروس موجود نہیں نہ ہی لینڈ لائن۔

کالج کا ذاتی کوئی کلرک بھی نہیں تھا۔ کوئی ریگولر سٹاف بھی نہیں۔ جو کبھی بھیجا گیا یا تووہ نامساعد حالات کے باعث، سیاسی و غیر سیاسی بنیادوں پر ٹرانسفر کروا گیا یا نوکری سے استعفی دے گیا۔ کالج کا تدریسی نظام مکمل طور پر عارضی بنیادوں پر سات ماہ کے لئے رکھے جانے والی ناتجربہ کار اساتذہ کا مرہون منت ہے جن کی تقرری عمومی طور پر اکتوبرسے عمل میں لائی جاتی ہے۔ گویا ڈیڑھ ماہ چھٹیوں کے بعد طالبات کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ آج چھے سال بعد بھی وہاں طالبات کی کل تعداد 100 سے نہیں بڑھ سکی۔ اور نہ ہی میں کبھی یہ سمجھ پائی کہ جب چوا سیدن شاہ کالج اس پورے علاقے کی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی تھا تو کروڑوں روپے اس ویرانے میں لگانے کی ضرورت کیا تھی۔ چوآ کالج کو صرف ایک اور بس کی گرانٹ ہی دے دیتے۔

یہ پنجاب کے کسی ایک ہی کالج کا حال نہیں ہے، بیشتر کالج اپنے بنانے والوں کی عقل کو روتے ہیں، لاوہ، دھرنال، ٹمن، ملتان خرد یہ پنڈی ڈویژن کے وہ کالج ہیں جن کی کمی تلاگنگ کالج کو کچھ گرانٹ دے کر پوری کی جا سکتی تھی، یا کبھی آبادی کے تناسب میں اضافے پر زیر غور لایا جا سکتا تھا۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ میں جمکے چیما، بھوپال والا اور سمڑیال کا لج میں بھی بمشکل 10 کلومیٹر کا فاصلہ ہے جبکہ بھوپال والا میں تعداد 300 سے کم ہے۔

چار سال پہلے راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے ایک کالج میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کالج کے تین اطراف میں قبرستان تھا، اور چوتھی طرف ایک بہت بڑا نالہ۔ کالج تک ایک باریک سی گلی جاتی تھی جس میں سے صرف پیدل گزرا جا سکتا تھا، اس کی ایک جانب کالج کی دیوار اور دوسری جانب قبرستان تھا جس میں ایک قبر کھودی جا رہی تھی۔ خوف کے مارے تیز تیز قدموں کے ساتھ کالج کے ممکنہ دروازے پر پہنچی، خدا کے خوف اور قبر کے عذاب کے ڈر والے جذبات لبریز ہو چکے تھے۔ دروازہ 1947کے دور کا معلوم ہوتا تھا، لکڑی جگہ جہ سے اکھڑ رہی تھی، گو یہ بھی پہلا اتفاق تھا کہ کسی کالج کا دروازہ لکڑی کا تھا، شاید یہ اسی قبرستان کا داخلی دروازہ رہا ہو گا۔ بارہا کھٹکھٹایا پر جواب موصول نا ہوا، میری حیرت اب تجسس میں بدل چکی تھی، الٹے قدموں گورکن کے پاس پہنچی اور دریافت کیا کے کالج والے دروازہ کیوں نہیں کھول رہے تو اس نے بتایا کہ کالج میں داخل ہونے کے لیے اس دروازے سے آگلے اسکول کے دروازے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دونوں گویا جڑواں ہیں۔ اسوقت کالج کی کل تعداد لگ بھگ 60 تھی۔

مسائل یہاں ختم نہیں ہوتے۔ 95% سے زائد کالجز میں کلرک برادری خونخوار مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے چائے پانی کی مد میں 500 سے 5000 کا ریٹ چلتا ہے۔ اس کے باوجود وہ آپ کو بآور کرواتے رہتے ہیں کہ یہ ان کا احسان عظیم ہے۔ پہلی بار پے سلپ بنوانی ہو تو کبھی ایک ماہ میں کام نہیں ہونے دیتے، پے سلپ کے الگ اور پھر پچھلا بل بنوانے کے الگ ریٹ چلتے ہیں۔ ہر دوسرے دن جب تک آپ ان کے مدار میں دس چکر نا لگا لیں، خون کے آنسو نہ رو لیں رحم کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔ چاہے ساری دنیا آن لائن سسٹم پر آ جائے، اکاؤنٹ آفس سے بقلم خود کام کروانے کی ٹھان بھی لیں تو وہ آپ کو کاغذوں میں الجھا کر جوتیاں چٹخواتے رہتے ہیں۔ جہاں کوئی ناتجربہ کار پرنسپل آجائے وہاں لاکھوں کا غبن معمولی بات ہے۔ اساتذہ کی بات بے بات ان کوائری کرنے والے ڈیپارٹمنٹ کی اس کرپشن پر خاموشی اور بے بسی ایک سوالیہ نشان ہے۔

سویپرز، مالی وغیرہ بھی اکثر بیماری کا بہانہ بنا کر اپنی جگہ کسی کو کچھ پیسے دے کر بھجوا دیتے ہیں گویا نوکر کے آگے چاکر۔ چونکہ ان کی تقرری بھی سیاسی ہوتی ہے لہذا بیچاری پرنسپل بھی بیشتر حالات میں بے بس نظر آتی ہے۔ کچھ جگہ حالات برعکس بھی ہیں، جہاں گندم کی بوائی سے لے کر ہانڈی، روٹی، کپڑے دھلائی تک میں کالج ملازمین کو ذاتی ملازم بنایا گیا۔ کالج کی کنسٹرکشن کا سامان ہیڈ کلرک کے نو تعممیراتی گھر جاتا رہا، بسوں کے پٹرول اور کرایوں میں غبن بھی معمولی بات ہے۔ گویا دونوں ہاتھوں سے جتنا لوٹا جا سکتا ہے لوٹا جا رہا ہے، جو کام کرنا چاہتا ہے اسے اتنا مایوس کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی عزت بچا کر خاموش ہونے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔

شہروں میں حالات بہت بہتر ہیں، چیک ایڈ بیلنس کا نظام بھی بہتر ہے۔ اکثر کالجز میں پرخلوص اور محنتی لوگ کمیٹمنٹ کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں لیکن میرا مقصد تصویر کے اس حصے کی نشاندھی کرنا ہےجو اس کے اصل حسن کو گرہن لگائے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).