خاندان: اصول اور اقدار بدلنے کی ضرورت (2)


\"zeeshanصنعتی انقلاب نے مرچنٹ ازم کی کوکھ سے جنم پایا مگر چار اہم عوامل کی مدد سے – ایک پراپرٹی رائٹس (حق جائیداد ) کے سبب جس میں پیٹنٹ رائٹس کو بھی بہت اہمیت ملی – دوسرا سائنسی انقلاب جس نے تخلیق و پیداوار کے عمل میں بھرپور مدد کی – تیسرا مارکیٹ کا باقاعدہ اور بھرپور انداز میں قائم ہونا – چوتھا دیہات سے آنے والی سستی لیبر –

صنعتی انقلاب سے پہلے شہری معیشت میں پیداواری مراکز گھر ہوتے تھے جس میں پورا خاندان بچے بوڑھے عورت مرد سب مل کر کپڑے سازی اور دوسری چھوٹی صنعتوں میں کام کرتے تھے جن پر گلڈز کی اجارہ داری تھی – اسی طرح دیہات کی معیشت میں بھی پورا خاندان کھیتوں میں کام کرتا تھا اس دوران دو بڑی تبدیلیاں آئیں جس نے خاندان کی ساخت پر مزید اثر ڈالا –

ایک یہ کہ شہری معیشت کی پیداوار اب گھر سے فیکٹری اور مل میں منتقل ہو گئی – وہ تمام لوگ جو پہلے گھر میں کام کرتے تھے اب وہ وہاں سے فیکٹری میں کام کرنے جانے لگے – دوسری طرف یہ کہ جدید سائنسی ایجادات اور مشینوں کے سبب اب لارڈ (جاگیردار ) خود ساری زمین کو کم کسانوں کی مدد سے کاشت کرنے کے قابل ہو گئے – تیسرا مارکیٹ میں کپاس کی بہت زیادہ طلب تھی جس سے کھڈیوں کی صنعت میں کپڑا بنتا تھا ، یوں زیادہ کپاس کی کاشت کے لئے فیوڈل لارڈ نے یہ کیا

\"Children

کہ وہ ساری زمین جس پر بے زمین کسان رہتے تھے اسے قابل کاشت بنانے کے لئے جو ضرورت سے زائد کسان لیبر تھی اسے کھیتوں سے بے دخل کر دیا – یہ لوگ روزگار اور رہنے کے لئے جگہ کی تلاش میں شہروں میں امڈ پڑے – اس وقت شہروں میں صنعت محدود تھی مگر وہ لیبر جو دیہات سے اور شہری گھرانوں سے اٹھ کر آ گئی تھی کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی اس سے ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہوا – شہر جو آزاد انتظام پر چل رہے تھے ان کی انتظامیہ نے ایک بڑی تعداد کو شہروں میں داخل نہ ہونے دیا – وہ بے چارے نہ دیہات میں جا سکتے تھے اور نہ شہروں میں داخل ہو سکتے تھے …یوں بھوک اور بیماریوں کے سبب بہت زیادہ اموات ہوئیں اور لوگ بھکاری بنے سڑکوں پر پڑے ملتے – حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کسی کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ آخر ہو کیا گیا ہے ؟ یہ انسانی بحران جنم کیسے پایا ہے؟ – پاؤل Mantoux اپنی کتاب \”دی انڈسٹریل revolution ، دی XVIII سنچری\” میں ملکہ Elizabeth کے سفر کے بارے لکھتا ہے جو اس نے اپنی سلطنت کا جائزہ لینے کے لئے کیا ، وہ لکھتا ہے کہ ملک کی حالت دیکھ کر ملکہ چلائی

Paupers are everywhere, what has happened in the interim?

(ہر طرف بھکاری ہیں ، میرے گزشتہ اور اس سفر کے دوران ایسا کیا ہو گیا ہے ؟)

\"A

 اس سے مزید دو تبدیلیاں پیدا ہوئیں، ایک یہ کہ زیادہ رسد اور کم طلب کے سبب مزدوری (wages ) گر گئیں جس کے سبب صنعتکاروں کو زیادہ نفع ہوا ، انہوں نے مزید انویسٹمنٹ کی اور مزید نفع کمایا -اس پھیلاؤ میں کچھ مدت لگی اور جیسے ہی مزدوروں کی رسد اور طلب تقریبا برابر ہوئی مزدوروں کی اجرت میں اضافہ ہونا شروع ہوا – اجرتوں میں اضافہ جاری رہا اور جلد ہی وہ وقت آ گیا کہ ایک فرد اپنی محنت سے اتنا کما سکتا تھا کہ اس کے بچوں اور بیوی کو فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرنے کی ضرورت نہ رہی – یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا تھا کہ ایک ماں معاشی محنت سے آزاد اپنے گھر میں خود کو گھریلو زندگی کے لئے وقف کر سکتی تھی – جب کہ اس سے پہلے اگر وہ گھر میں کھڈیوں پر کام کرتی تھی تب بھی وہ ایک مزدور تھی ، اور جب وہ کھیتوں میں کام کرتی تھی تب بھی وہ محنت کش تھی – مگر اب اس کا گھر میں کام کاج رضاکارانہ تھا جو خاندان کے لئے وقف تھا ، وہ منڈی کی معیشت سے ایک حد تک باہر نکل گئی – چونکہ اب دادی کی جگہ بچہ کی نگہداشت اور تربیت میں ماں کا کردار بڑھ گیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ دادی پوتا پوتی سے دور ہو گئی اور خاندان مزید سکڑ گیا –

دوسرا اثر یہ ہوا کہ صنعتی ترقی نے خاص طور پر صنعتی انقلاب دوم کے بعد جب خام مزدور (Raw Labor ) کی جگہ بڑی بڑی مشینوں نے لے لی اور افرادی قوت کی جسمانی طاقت کے بجائے ذہنی اور تخلیقی طاقت کی ضرورت مینوفیکچرنگ اور خدمات کی پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں پڑی تو وہ بچے جو فیکٹری اور مل سے باہر ہو گئے تھے اور بچپن کے مزے لوٹ رہے تھے ، ان کے لئے ان کے والدین کو لازمی تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی وگرنہ وہ مارکیٹ میں اپنی روزگار حاصل کرنے \"10\"میں ناکام رہ جاتے – جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم کی ترغیب پیدا ہوئی اور صرف دو نسلوں میں پورا صنعتی یورپ تعلیم یافتہ ہو گیا – تعلیم میں یہ پھیلاؤ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کی وجہ سے ہے جب مشینوں نے جسمانی طاقت کی جگہ لے کر ذہنی طاقت کی طلب پیدا کی – یہ یونیورسل لٹریسی ریٹ نہ گورنمنٹ کی کسی منصوبہ بندی کے سبب پیدا ہوا اور نہ ہی کوئی سوشل تحریک اس کا باعث ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ انیسویں صدی میں صنعتی مغرب میں شرح خواندگی آج کے مغرب سے بھی زیادہ تھی جب تعلیم گورنمنٹ کی نہیں بلکہ والدین کی ذمہ داری تھی ، تعلیم مکمل طور پر پرائیویٹ تھی اور ریاستی بیانیہ نصاب کی صورت میں بچوں کے ذہنوں پر ٹھونسا نہیں جاتا تھا –

تیسری طرف وہ خواتین جو گھروں میں کام کرتی تھیں ان کے لئے بجلی سے چلنے والے آلات نے روزمرہ کے گھریلو کام کو مزید آسان بنا دیا – وہ جب گھریلو کاموں کی مشقت سے نکلیں تو زیادہ سوشل ہو گئیں کیونکہ فالتو وقت اب انہیں میسر تھا، مگر انہوں نے مارکیٹ میں جانے کے بجائے سماجی کاموں میں شمولیت زیادہ پسند کی – چرچ کی تقریبات ہوں یا کمیونٹی پروگرام ، بچوں کے سکول میں کوئی تقریب ہو یا کوئی شادی بیاہ کی تقریب یا دکھ سکھ ان میں خواتین کی شرکت لازم ہو گئی – اس وقت ایک ترتیب مقبول تھی کہ والدین مارکیٹ میں ، ماں گھر اور کمیونٹی میں ، اور بچہ اسکول اور کھیل کے میدان میں –

\"12\"چوتھی چیز یہ کہ گھر کا تصور ہی بدل گیا – صنعتی انقلاب سے قبل گھر پیداواری مرکز تھا ، انقلاب کے بعد یہ خرچ (consumption ) کی جگہ بن گیا – گھر کا تصور رومانوی بن گیا – اب مرد مارکیٹ کی ان تھک محنت سے تھکا ہارا آتا تو گھر اور بیوی اسے راحت دیتی – بچہ ماسٹر کی سختیوں میں گھر کے رومانس میں کھو جاتا – گھر کا سارا انتظام ماں کے پاس تھا ، وہ اس کی مینجر تھی – باپ کے لئے گھر ایک ریلیف سنٹر تھا سارے دن کا تھکا آرا وہ یہاں آ کر سکون پاتا – بچہ کی یہاں تربیت ہوتی کہ وہ مستقبل کا بہترین مینیجر یا انٹریپرینیور بنے اور بدلتے سماج میں اپنا بہترین کردار ادا کرے –

پانچویں تبدیلی یہ آئی کہ فرد اتنی دولت کما رہا تھا کہ وہ اس میں سے کچھ حصہ اپنے بڑھاپے کے لئے محفوظ رکھ سکے – پرائیویٹ پنشن اور انویسٹمنٹ سکیمز کا اجراء ہوا جس میں باپ اپنی تنخواہ کے مطابق رقم محفوظ کرتا تاکہ زندگی میں کسی ناگہانی صورتحال اور بڑھاپے کے معاشی مسائل سے محفوظ رہے – انیسویں صدی بنکنگ اور فنانشل سیکٹر کے عروج کی صدی ہے ، اور دلچسپ بات یہ کہ بغیر حکومتی ضمانت اور نگرانی کے یہ صدی فنانشل بحرانوں سے تقریبا محفوظ ہے – معاشی منصوبہ بندی نے معاشی طور پر باپ کو اپنی بالغ اولاد پر انحصار سے ایک حد تک آزاد کر دیا – والدین بچہ کی تربیت کرتے ، جب وہ بالغ ہو کر اور تعلیم مکمل کر کے مارکیٹ میں روزگار حاصل کرتا اور شادی کرتا تو والدین سے خوشی خوشی علیحدہ ہو جاتا – معاشی انحصار کی غیر موجودگی نے اخلاقیات کو بھی بدل دیا – اب بچہ دادی کا نہیں ماں کا تھا ، بچہ کی سماجی تربیت دادا نہیں باپ کرتا تھا ، یوں دادا اور دادی کا تعلق پرائمری نہیں بلکہ ثانوی اہمیت اختیار کر گیا –

یہ جس صدی کی ہم باتیں کر رہے ہیں یہ انیسویں صدی ہے – ہم بیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں جس میں مزید تبدیلیاں آتی ہیں مگر یہ انیسویں صدی کی تبدیلیوں کا \"11\"تسلسل ہیں – انیسویں صدی میں پیداوار سرمایہ اور محنت پر انحصار کرتی تھی ، بیسوی صدی میں ان دونوں عوامل کی اہمیت کم ہوتی گئی اور ان کی جگہ آئیڈیاز کی اہمیت بڑھتی گئی – مارکیٹ کو اب نہ سرمایہ کی ضرورت تھی اور نہ خام محنت کی ، اسے تخلیقی صلاحیتوں ، پیداواری قابلیت ، دریافت ، ایجاد ، اور نئی چیز یا خدمت کی تلاش تھی اور اب اس کے سامنے مرد و عورت کی تقسیم نہیں بلکہ ٹیلنٹ کی تلاش تھی –

یہاں ایک بات یاد رہے کہ انیسویں بیسویں اور جاری اکیسویں صدی کے صنعتی عہد نے خاندان کی بنیاد کو کسی جبر کا پابند نہیں رکھا بلکہ اس کی بنیاد رضاکارانہ بنا دی ہے- کیونکہ ایک عورت ہو یا مرد معاشی طور پر وہ آزاد ہیں ، وہ کہیں بھی جا کر روزگار حاصل کر کے اپنی زندگی جی سکتے ہیں – آج کی پیداوار نہ قبائلی ہے اور نہ خاندان اس کی اکائی ہے بلکہ یہ حیثیت فرد کو حاصل ہو گئی ہے اور مارکیٹ فرد کے انتخاب میں صنفی امتیاز کی قائل نہیں اسے تو پیداواری صلاحیت کی طلب ہے – اب میاں بیوی کا تعلق مجبوری نہیں بلکہ محبت اور انسیت کا آرزو مند ہے – یہاں ایک پیچیدگی بھی قائم ہوئی ہے جس کا اظہار لازم ہے –کلاسیکل لبرل ازم کی خواہش ہے کہ خاندان کے ادارے کو بقا ملے کیونکہ بچوں کی پرورش میں والدین کا کوئی متبادل نہیں اور بچہ کی بہتر نشودنما سرکاری بیوروکریٹ نہیں بلکہ والدین ہی کر سکتے ہیں – دوسری طرف یہ اصول بھی قائم ہے کہ خاندان کی بنیاد محبت پیار اور رضاکارانہ اشتراک پر ہو ، اس میں جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا – یوں میاں بیوی کے مابین باہمی تعلق کے درمیان محبت و رضامندی کے تعلق کی لازمی شرط اور بچوں کی ناگزیر تربیت و نشودنما \"15\"چلینجز پیدا کرتی ہے جس سے انتہائی سنجیدگی اخلاص اور احتیاط سے نمٹنا لازمی ہے – یہ چیلنجز میاں بیوی کے رشتہ میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی صرف میاں بیوی کے پاس ہے ، رشتہ کے تحفظ کے نام پر ریاست یا سماج کوئی جبر ان پر نافذ نہیں کر سکتا –

شادی دراصل مرد و عورت کا ایک دوسرے کے عہد و پیمان میں آنے کا نام ہے ، اس کے لئے تمام مذاہب اپنا اپنا بندوبست قائم کرتے ہیں تو معاشرے اپنے رسم و رواج کی ریت نبھاتے ہیں ، اور قانون کا بھی اپنا منفرد انداز ہے – مگر ان سب کے ہاں بھی باہمی عہد و پیمان ہی شادی کی بنیاد ہے – صنعتی انقلاب جتنا جدید ہوتا جا رہا ہے اتنا ہی شادی کی یہ صورت کم رسمی اور کم مدتی ہوتی جا رہی ہے – قانونی شادی میں آنے کی ایک رکاوٹ بعد از طلاق جائیداد کی تقسیم بھی ہے تو مستقبل کی غیر یقینیت بھی کہ جانے شادی کب تک چلے – اسی طرح کیتھولک چرچ سے وابستہ لوگوں کے لئے بھی شادی ، طلاق اور پھر دوسری شادی سے متعلق پیچیدگیاں بھی موجود ہیں –

مارکیٹ کی معیشت میں یقینا خواتین کو مردوں کے مقابلے میں روزگار کے مسائل کا سامنا ہے جن میں سے پہلا مسئلہ کاروباری اداروں کی طرف سے یہ غیر یقینیت ہے کہ آیا جاب کے لئے امیدوار خاتون زیادہ مدت کے لئے جاب جاری رکھ پائے گی یا جلد ہی گھریلو زندگی کو ترجیح دے کر ہاؤس وائف بننا زیادہ پسند کرے گی یوں \"16\"ٹریننگ اور طویل عرصہ کے لئے تجربہ دینے کی ترغیب میں کمی آجاتی ہے جب کہ یہ مسئلہ مردوں کے سلسلے میں نہیں ہوتا –اسی طرح بچہ کی پیدائش کے بعد میٹرنل چھٹیاں اور بعد از پیدائش خاتون کی بچے کے لئے توجہ میں اضافہ بھی ایک کمپنی کے لئے اس فیصلہ میں پیچیدگی کا یقینا سبب بنتا ہے کہ آیا جاب کے لئے امیدوار خاتون کو مرد امیدوار پر ترجیح دی جائے یا نہیں –ٹیکسز کے بھی مسائل ہیں جیسے ہاؤس ہولڈ لیول (گھرانہ کی بنیاد ) پر انکم ٹیکس جو گھر کے دو افراد کے لئے جاب کی ترغیب میں کمی لاتا ہے – وغیرہ وغیرہ

ایسا ہر گز نہیں کہ وہ مغربی خواتین جو کسی روزگار سے منسلک نہیں وہ بالکل ہی گھریلو ہوتی ہیں بلکہ ان کی اکثریت فارغ اوقات میں یا تو مفت سوشل سروسز میں کام کرتی ہے جیسے اولڈ ہاوسز میں نرسنگ یا پارٹ ٹائم ٹیچنگ یا کسی موضوع پر تحقیق یا کچھ اور-

یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سارے اسباب ہیں جو ایک طویل تاریخی ارتقاء سے گزرے ہیں اور جنہوں نے دور حاضر کے فیملی سسٹم کو جنم دیا ہے – خاکسار کی رائے میں جس سبب نے بنیادی کردار ادا کیا ہے وہ معیشت ہے ، طریقہ پیداوار ہی دراصل معاشرت کو نئے رنگ دیتا آیا ہے – ہم اہل پاکستان ، ایک ایسے تمدن میں \"20\"رہتے ہیں جو زرعی اور صنعتی عہد کے مابین لٹکا ہوا ہے – جب مادی حالات بدلیں گے تو اخلاقیات بھی یقینا نئی جہت سے روشناس ہو گی –مثال کے طور پر ایک خاتون جو معاشی طور پر خود کفیل ہو وہ زیادہ آزاد ، نڈر اور بااعتماد ہوتی ہے – یہ ہماری نیم زرعی اور نیم صنعتی ثقافت کی بدولت ہی ہے کہ ہم خاندان کے ایک مخصوص تصور کو جبر و تشدد سے قائم رکھنا چاہتے ہیں – ہر وہ چیز جسے اپنے قیام کے لئے جبر کی ضرورت ہو وہ جلد ہی معدوم ہو جاتی ہے – آئیے کہ ہم فرد و خاندان کو تجزیاتی سائنس سے سمجھنے کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور نفسیات کے حوالے سے بھی سمجھیں ، معاشرت کی بنیاد باہمی اعتماد اور رضاکارانہ تعاون پر رکھیں ، اور کسی بھی انسان پر (چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب نسل زبان قومیت ثقافت اور صنف سے ہے) اگر ظلم ہو رہا ہے تو اس کے خاتمہ کو اپنا مقصود و منشور بنائیں نہ کہ کسی مفروضہ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انسانوں کی بھینٹ دینے کو مشرقیت کا تقاضا سمجھا جائے –

پہلا حصہ پڑھنے کے لئے اس لنک پر جائیں

 

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments