بھائی سے اختلاف بھائی تک رہے، بہن کو بے لباس مت کریں


جاوید لطیف عوامی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، عوامی نمائندے ہیں۔ انہوں نے ترجمانی کا حق ادا کیا ہے، اور جیسی آج معافی مانگی ہے اس نے مجھے یقین دلا دیا ہے کہ روایات کی پاسداری ان سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ کچھ لوگ جاوید لطیف سے خفا ہیں کہ انہوں نے یہ لب و لہجہ کیوں اختیار کیا ، یہ عوامی نمائندگان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی زبان استعمال کریں۔ شور بڑھا تو جاوید صاحب نے معافی مانگ لی اور ساتھ ہی فرما دیا کہ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا جو کہا وہ صحیح تھا یا غلط۔ اب اگر جاوید لطیف نے معافی مانگ لی ہے تو تھوڑی سی باتیں ہم اور آپ بھی کر لیتے ہیں۔

یہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک پرچے کا چرچا ہوا، بہت سے غیرت مند طیش میں آ گئے، اپنی بہنوں کا دفاع کرنے والوں نے ممتحن، ڈائریکٹر اور بلاگرز سب کی بہنوں کے بارے میں جو الفاظ لکھے وہ میں پھر سے یہاں نقل نہیں کرنا چاہتی۔ اس سے پہلے ایک اشتہار میں فحاشی ڈھونڈنے والوں اور ان کے حمایتیوں نے مخالف آوازوں سے مطالبہ کیا کہ تمام مرد حضرات اپنے گھر کی خواتین کی ویڈیو اور تمام خواتین لکھاری اپنی اور اپنی بہنوں کی ایسی ویڈیو بنا کر پوسٹ کریں جس میں وہ بھاگ رہی ہوں کیمرہ فرنٹ زومڈ ہو اور چھاتی پر فوکسڈ ہو۔۔۔۔یہ صرف ان کی بات ہو رہی ہے جن سے ہمارا آمنا سامنا سوشل میڈیا پر ہوتا ہے۔ کیا سوشل میڈیا پر مریخ سے لوگ آتے ہیں ؟ یہ وہی لوگ ہیں جو گلی محلے اور بیچ بازار جملے کستے ہیں، کندھے ٹکراتے ہیں ، قریب سے گزرتے ہیں تو پشت پر ہاتھ مار کر تیزی سے بائیک پر نکل جاتے ہیں ، ذرا سے آپسی اختلاف پر ماں اور بہن کی گالیوں سے آغاز کرتے ہیں ۔ اگر آپ ان حقائق سے انکار کرنا چاہتے ہیں تو یقین جانیں آپ وہی ہیں جو کہتے ہیں کیونکہ مجھے آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا اس لیے کسی اور کو بھی کچھ نہیں کہا ہو گا مگر آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سب کچھ اتنا اچھا بھی نہیں جتنا آپ نے سوچ لیا ہے۔آپ کسی ادارے میں ملازمت کریں تو ایک مرد ہونے کے ناطے آپ کو اس بات کا خطرہ کتنے فیصد ہے کہ آپ کی خاتون باس آپ کو کہیں اکیلا دیکھ کر چومنے کی کوشش کریں؟ اب ذرا یہ دیکھیں یہ خطرہ کتنے فیصد ہے کہ آپ ایک خاتون ہیں اور آپ کے ساتھ کوئی بھی کسی قسم کی زبردستی کرنے کا سوچ سکتا ہے اور ایسی کوشش کرتا ہے؟ اگر اس تناسب میں زیادہ فرق نہیں ہے تو آپ ٹھیک ہیں اگر بہت فرق ہے تو پھر کچھ تو غلط ہے نا؟ یا نہیں؟ کسی کو کمزور سمجھ کر، اکیلا دیکھ کر اس پر جملے کسنا یا جسمانی تشدد و زبردستی کا نشانہ بنانا کیا کوئی بہت انوکھی بات ہے؟

بیگم رعنا لیاقت سے بیگم نصرت بھٹو تک، بےنظیر سے مریم نواز تک، ٹیکسی سے ٹریکٹر ٹرالی تک ۔۔۔۔ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟ یقین جانیں اتنی بار تو ہم تاریخ کے نازک موڑ سے نہیں گزرے جتنی بار یہ باتیں سیاسی تاریخ میں کہی جا چکی ہیں۔ جناح کی بہن سے مراد سعید کی بہن تک یہ سب ایسے ہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔جاوید صاحب کے بقول وہ غصے میں تھے، مجھے بس ان سے یہی گلہ ہے ایسی گفتگو تو یاروں دوستوں کی محفل میں ہنستے ہنستے کی جاتی ہے انہیں غصے کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ بات کہہ کر انہوں نے مجھے مشکل میں ڈال دیا۔ میں تب سے یہی سوچ رہی ہوں غصے میں مراد سعید کے چھوٹے بھائیوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کرنا چاہیئے تھا نا؟ مگر وہ کیا ہے نا عزت تو ہوتی ہے عورتوں سے منسوب۔ بےعزتی بھی انہی کے دم سے ہوتی ہے۔ غیرت کے نام پر اکثر مرنا بھی انہی کو پڑتا ہے، سیاسی اختلاف سے ذاتی رنجشوں تک، ٹی وی کیمرے سے ڈرائینگ روم تک یہ اندازِ گفتگو عام ہے۔ جاتے جاتے اتنا کہنا تھا کہ آپ کسی کی بہن کی عزت نہ کریں ، کسی کی ماں کو سانجھا مت تصور کریں ، یہ بےکار پرزے انسان ہیں، انہیں انسان ہی سمجھیں۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا تب تک آپ کے لڑائی جھگڑوں میں رشتوں کو ذلت اٹھانی پڑے گی۔ یہ رہی عزت اور وہ رہی غیرت، اس کا بوجھ ہمارے جسموں اور ہمارے رشتوں سے اٹھا لیں۔اگر آپ کا اختلاف میرے بھائی سے ہے تو اس کی ذات تک رہیں ، بھائی کی بہن کو بےلباس مت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).