پاکستان میں مسالک و مدارس کا ارتقا


آپ کے خادم نے گزشتہ تحریر، پاکستانی مدارس دھشت گرد نہیں ہیں میں یہی موضوعاتی بنیاد رکھنے کی کوشش کی اور اپنے اس بھرپور اور مضبوط تیقن کا اظہار کیا تھا کہ پاکستانی مدارس، ان میں پڑھنے، پڑھانے والے اور ان کے مہتمین و اکابرین نہ صرف دھشتگرد نہیں ہیں، بلکہ ان کی اک بہت/بہت بڑی اکثریت ہر قسم کی دھشت گردی کے خلاف بھی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کی چار بڑی تشریحات مروج ہیں۔ ان میں سے بریلویت اور دیوبندیت کا فقہی سرچشمہ مشترکہ ہے، جب کہ اہل تشیع اپنے دین و دنیا کے معاملات کو فقہ جعفریہ سے جوڑتے ہیں۔

مجھے ذاتی حیثیت میں، اہلحدیث اور سلفیت کی تشکیل، عمومی قبولیت اور پھر ان کا اک جماعت میں ڈھل جانا بہت Fascinate کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں امام حنبل، امام مالک اور پھر امام شافعی کے Influences میں ارتقائی اختلاف ہونے کے باوجود، تاریخ کے بہاؤ میں قریبا قریبا یکجا ہو گئے اور ہمارے سامنے وہ جماعت آتی ہے جسے ہم اہلحدیث کے نام سے جانتے ہیں۔ عام فہم کے لیے بیان کرتا چلوں کہ اہلحدیث اور سلفی، یہ دو الگ طریق کی جماعتیں ہیں، گو کہ ان کے بنیادی مشترکات اکثریت میں بالکل ویسے ہی ملتے جلتے ہیں جیسے کہ دیوبندیت اور بریلویت میں ہیں۔

قارئین سے گزارش ہے کہ آنے والے تین پیراگرافس کو آہستگی سے پڑھیں۔ ان میں تھوڑی گھمن گھیریاں ہیں جن کا سمجھنا، تحاریر کے اس سلسلہ کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔

1۔ پاکستان میں موجود ان تمام مسالک و جماعتوں کے مابین، بنیادی مشترکات میں اخلاص، اکثریت اور اثبات موجود ہے اور یہ سلسلہ پاکستان کے بن جانے سے قبل کا ہے۔ ہاں مگر، ان ہلکی تنقید یہ بہرحال بنتی ہے کہ سیاسی، معاشرتی، مسلکی اور پھر معاشی مفادات کے تحت، ان مسالک کے رہنماؤں نے تاریخ کے مختلف مواقع پر اکثر و بیشتر کا دوسرے کے مخالف پوزیشنز لیں جو ان کے مشیر، ان کے معاونین کے ذریعے سے ان کے پیروکاروں تک پہنچیں جو برصغیر کی تاریخ کے ارتقائی سفر میں آپس کے مذہبی و سیاسی اختلافات کی شکل اختیار کر گئیں۔

2۔ فقہ، مسلک اور ان سے جڑے ہوئے دینی، تشریحاتی اور مسلکی مباحث جب سیاست، معاشرت اور معاش کے پسِ منظر میں ابھرے تو ان میں تفریق کے عناصر اصل سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ ابھرے۔ اس شدت نے بہت سرعت کے ساتھ اس مسالک کے پیروکاروں کی جانب سفر کیا کہ عوام اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات میں، انہی سیاسی اور مذہبی نظریات کے رہنماؤں کی نسبت کہیں زیادہ جذباتی اور باعمل ہوتے ہیں اور اپنی عملیت کا ثبوت دینے کے لیے بسا اوقات تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس عمل کی اک بہت دلچسپ نفسیاتی تحلیل (Psycho Analysis) بھی ہے: رہنما بھی پھر ان عامی جذبات کے اسیر بن جاتے ہیں اور وہ تفرقات جو اپنی بنیاد میں پڑھے لکھے لوگوں کی علمی اور مسلکی گفتگوئیں ہوتی ہیں، وہ عامیوں میں آ کر فروعی اور فرقوی اختلافات بن جاتی ہیں۔ یہ اختلافات جب معاشرت کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان کے معاشرتی مفادات بھی جنم لے لیتے ہیں، جن میں رہنما کردار سیاسی و معاشی مفادات ادا کرتے ہیں۔ یہ سیاسی اور معاشی مفادات، تقریبا تمام کی تمام مسلم تاریخ میں دربار و ملوکیت سے ہی جڑے ہوئے ملتے ہیں۔

3۔ تاریخ کے بہاؤ میں جب بھی دینی رہنما، عوامی جذبات کے اسیر ہونے کی جانب روانہ ہوئے، ہر اک مسلک میں پھر انہی رہنماؤں کے دو گروہ بن گئے۔ اک گروہ نے، تھوڑی حقارت کے ساتھ، عوامی ہونے سے قصداً اور شدت والا گریز کیا اور اپنی ترجیحات محض اپنے مسلک کے رستے پر چلتے ہوئے دین کی علمی و ادبی خدمات رکھیں۔ اس گروہ کی ہمیشہ سے ہر مسلک میں اکثریت رہی ہے، اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ جبکہ اک اقلیتی گروہ نے سیاست، معاشرت اور معاش کے میدان میں سواری کی اور دربار و ملوکیت سے جڑ کر بنیادی طور پر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ یہاں پھر اک بہت دلچسپ ضرب تقسیم بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور اس موقع پر خادم آپ کو تاریخ سے واپس پاکستان کی جانب لانا چاہتا ہے۔ مشترکہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں ان دونوں گروہوں کا بنیادی میدان معاشرت ہی رہی، تو لہذا آپسی تفرقات و اختلافات کے باوجود بھی طرفین اک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے نظر آئے۔ اس لیے کہ طرفین اک دوسرے پر اپنے اپنے دینی حوالہ جات اور ان کی معاشرتی ترویج کی حکمت عملی کے تحت، اک دوجے پر انحصار کرتے تھے۔ یہ صورتحال اب بھی ایسی ہی ہے، اور آئندہ بھی ایسی ہی رہے گی۔

پاکستان کی تخلیق سے پہلے ان تمام جماعتوں کی اک دلچسپ تاریخ موجود رہی ہے جس کا تذکرہ وطنِ عزیز میں جاری عام مباحث میں بالکل نہیں ملتا۔ تمام مسلکی جماعتوں اور ان کے مرکزی دینی و سیاسی قائدین کو اپنے اپنے مسلک کے حوالے سے تاریخ کے اس ارتقائی سفر کا بہت اچھی طرح سے علم ہے۔ وہ چونکہ دینی حوالوں سے اپنے تاریخی مشترکات سے واقفیت رکھتے ہیں تو لہذا ان کے لیے پاکستانی سیاسی و معاشرتی تاریخ کے سفر میں اک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا اس وقت کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ جب ان قائدین نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک اتحاد کو اہم جانا۔ یہ معاملہ، بہرحال، عوام تک نہ پہنچ پایا اور اس کی بنیادی وجہ اوپر پیراگراف نمبر 2 میں بیان کی گئی ہے۔

مشترکات کا عوام تک نہ پہنچ پانا چونکہ ہر مسلکی کی سیاسی جماعت اور ان میں موجود دینی رہنماؤں کے جماعتی و ذاتی مفاد میں بھی تھا، تو اس لیے ان مشترکات کی عام ترویج کی جانب کم ہی توجہ دی گئی۔ یہ معاملہ آج بھی ایسا ہے، اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ اس میں مگر منفی تنقید کی کوئی وجہ اس لیے نہیں بنتی کہ ہر فرد و جماعت کو معاشرت کے تانے بانے میں اپنے مفاد کے پُرامن تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اور ہمیں بحثیت شہری، اس حق کا احترام کرنا چاہئیے۔

مسئلہ، ہاں مگر وہاں سے شروع ہوتا ہے جب یہ پرامن تحفظ، پرتشدد جذباتیت میں ڈھلتا ہے۔ پاکستان کے پس منظر میں اس کی وجوہات بھی مذہبی و مسلکی سے کہیں زیادہ سیاسی، معاشرتی و معاشی تھیں جس کے تحت مسالک کی ان جماعتوں کے رہنماؤں کو دربار اور ملوکیت سے گٹھ جوڑ کرنا پڑا۔ اور یہاں یہ گفتگو پاکستان کی تاریخ سنہء 1947 کے دروازے میں داخل ہو جاتی ہے۔

ذاتی نوٹ: ہم سب کا بہت شکریہ کہ خادم کو اس موضوع پر لکھنے اور پھر اشاعت کا موقع فراہم کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).