ڈاکٹر سید معین الدین عقیل سے ملاقات


کراچی میں بچوں کے ایک غیر معمولی اہمیت کے حامل پرچے ماہنامہ ’ساتھی‘ کے مدیر اعظم طارق (کوہستانی) نے 3 فروری کی صبح ناشتہ کا اہتمام کیا تھا۔ ہمارا قیام سینیئر صحافی و خوش مکھ دوست زاہد حسین کے یہاں تھا۔ رات گپ اڑاتے گزری۔ سویرے نہا کر کپڑے پہنے تو پتلون تنگ پڑگئی، معاملہ بھانپ کر زاہد بھائی اپنی پتلون لائے اور بولے :۔ ”میاں یہ پہنو۔ “ پہنی تو میں زاہد صاحب کا بہروپیا دکھا۔ جلد اتار پھینکی اور کھدڑ زیب تن کیا۔

زاہد صاحب نے اپنا حق میزبانی خوب ادا کیا، گاڑی نکالی اور اعظم صاحب کی طرف لیے چلے۔ پہنچتے ہی خاصے ناشتے کا اہتمام ہوا گو بٹلروں کی طرف سے تعویق ہوئی، مگر اپنے تئیں جی بھر کر ناشتہ اڑایا۔ اپنی ڈار میں ہم تین تھے تو اُس طرف بھی تین نکلتے تھے ایک وہ عبدالرحمن مومن صاحب تھے، مجھے مکالمے و میل جول سے آگے ان کا ایک شعر ازبر تھا۔

تو اگر مرا تذکرہ کرے گا

جھوٹ بولے گا اور کیا کرے گا

ایک صاحب حماد ظہیر صاحب تھے وہ بچوں کے لیے لکھتے ہیں، ایک اپنے اعظم صاحب تھے، جو ساتھی کے مدیر ہیں اور ہمارے میزبان بھی، ان دنوں ایم فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ بعنوان ’پاکستان میں بچوں کے چار رسائل‘ پر کام کر رہے ہیں۔ ناشتہ اڑاتے ڈار اس منصوبے پر اڑان بھرتے نکلی کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے یہاں چلتے ہیں۔ جد اُن کے دولت کدے گلستان جوہر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ دروازے پر ٹھہرے ہیں، میں نے اس سے قبل ڈاکٹرصاحب کو نہیں دیکھا تھا، قد کاٹھ نکلتا ہوا، چندیا صاف، اطراف کے سفید بال سدھے ہوے، وجود صحت مند طبعیتِ خوشگوار لیے وہ ہمارے خیر مقدم کو دروازے پر کھڑے تھے۔

ڈار سے نکلتے پنچھی باری باری ہاتھ ملا کر آگے چلتے گیے اور ڈاکٹر صاحب ہمارے پیچھے آلیے۔ یہ ایک نقشہ نما بنگلہ تھا۔ رہنے کو کمروں میں بستر و دیگر ضروریات زندگی نام کو بھی نہیں مگر الماریاں ہیں کہ کتابوں سے لدی ہیں گویا لائبریریاں ہیں۔ درمیان میں جگہ ٹی لاؤنج کی مگر واں میز پر تازہ کتب و رسائل پڑے ہیں۔ اطراف میں آرام دہ صوفے پڑے ہیں۔ جن پر صاحبان علم و فکر پراجمان ہیں۔ پسرتے ہی معلوم ہوا ڈاکٹر صاحب کے یہاں یہ محفل ہر اتوار برپا ہوتی ہے۔

یہ صبح نو بجے سے شروع ہوکر ایک دو کے قریب اختتام پر پہنچتی ہے۔ یہاں طالب علم آتے ہیں، ادیب و اساتذہ اپنی محافل جماتے ہیں۔ صاحبان علم اپنے تئیں مکالموں میں مگن ہیں۔ پنچھی تصاویر بنا بنوا رہے ہیں۔ میں میز پر پڑے تازہ کتب و رسائل کو ننگی نگاہوں سے دیکھنے ہی پایا تھاکہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب چلے آے۔ صوفے پر بیٹھتے ہی تعارف شروع ہوا، ہم نے تین سطریں پڑھ دیں کہ مظفرگڑھ سے ہوں۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بی ایس آنرز اردو کا طالب علم ہوں اور لکھنے کا شغل ہے۔

تعارف کا یہ سلسلہ پھیلتا گیا، یاں تک کہ سب مکان ہوے، تو اتنے میں اور صاحبان بھی آپہنچے، وہ بھی ہماری طرح تعارف و مکالمے کی رواروی میں بہہ گیے، ڈاکٹر صاحب کسی مستعد و مشفق استاد کی طرح سب کو نہایت توجہ سے سن رہے تھے، میں اپنے تئیں یہ سمجھا کہ بے کار کے تعارف ہیں، ان سب میں سے ڈاکٹر صاحب کو کس کس کا تعارف یاد رہے گا، وہ تو خیر جی میں لہر اٹھی، سو آن کی آن میں واپس ہوگئی، میں اٹھ کر کمرے میں سجی لائبریری دیکھنے لگا، ایک کے بعد ایک کمرہ دیکھا، سبھی کتابوں سے بھرپور تھے، کچھ ہی دیر میں چاے کا بلاوا آیا، چاے پیتے، چسکیاں لیتے، بسکٹ کھاتے وقت ایک سے اوپر نکل گیا۔

دم رخصت جب ہاتھ ملایا تو بولے :۔ ”آپ مظفرگڑھ سے ہیں نا؟ “ جی میں پھر لہر اٹھی یا اللہ خیر بیس بندوں میں ڈاکٹر صاحب کو مظفرگڑھی کیسے یاد رہ گیا۔ چھوٹتے ہی کہا:۔ ”جی، جی سر میں مظفرگڑھ سے ہوں۔ “ جھٹ سے بولے :۔ ”اور آپ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پڑھتے ہیں؟ ۔ “ کچھ دیر متذبذب ہوا اور ہکلا کر کہا:۔ ”جی۔ جی بالکل۔ “ انہوں نے جو یوں خریدا تو ساتھ ہی صوفے پر پسر گیا، دل کا چورآگے کیا اور پوچھا:۔ ”ڈاکٹر صاحب، اتنی پلٹن میں، میں کیسے یاد رہ گیا؟ “ مسکرا کر انہوں نے کندھے اچکاے اور کہا:۔ ”تم اگلی بار جب آو گے تو تمہارا نام لے کر پکارا کروں گا۔ “ بھئی دوستو بارے ان کی یادداشت کے، میں دنگ رہ گیا۔ چھوٹتے ہی مکالمہ کیا:۔ ”آج کل بی ایس آنرز کی سطح کا مقالہ لکھ رہا ہوں۔ “ بولے :۔ ”ماشاءاللہ ماشاءاللہ کیا موضوع ہے؟ “

” بچوں کے ادیبوں کی آپ بیتیوں کا تحقیقی مطالعہ۔ “ انہوں نے ایک ایک لفظ چبا کر مگر کس قدر محبت سے عنوان دہرایا:۔ ”بچوں کے ادیبوں کی آپ بیتیوں کا تحقیقی مقالہ۔ “ پھر ساتھ بیٹھے ایک صاحب علم سے گویا ہوے :۔ ”ارے واہ کیا نرالا موضوع ہے، بچوں کے ادیبوں کی آپ بیتیوں کا تحقیقی مطالعہ۔ “ وہ صاحب بھی حیرت سے دیکھنے لگے، مگر پھر ڈاکٹر صاحب بولے :۔ ”لکھنا شروع کردیا؟ “

” جی مگر امید نہیں کہ انصاف کرپاوں گا موضوع سے۔ “ پھر ایکایکی وہ یہ سن کر مسکراے اور کاندھے تھپتھپا کر بولے :۔ ”ارے ضرور کرلو گے، مجھے دکھانا، کچھ لکھوں گا۔ “ یہ سب سن کر ایک ڈھارس بندھی اور ہم قطار در قطار ڈاکٹر صاحب کے گھر سے مکان ہوے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں الوداع کرتے دروازے تک آے، ہاتھ ہلا کر پھر لوٹ گیے، اے دوستو! بارے ڈاکٹر صاحب کے تعارف کے کیا لکھوں اور کہاں سے شروع کروں ڈاکٹر معین الدین عقیل کا تعارف، اول تو یہ کہ وہ کسی تعریف و تعارف کے محتاج نہیں، آپ ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری رکھنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے سلسلہ ’تصوف سیریز کے ایڈیٹر ہیں، آپ ایک عرصہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد شعبہ اردو کے صدر رہے، ایک عرصہ جامعہ کراچی میں صدر شعبہ اردو کی ذمہ داری پوری کی، جامعہ کراچی میں‘ ایوننگ پلان ’کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ شہنشاہ جاپان Akihito نے عالمی سطح کی جن 20 ممتاز شخصیات کو ان کی علمی اور تہذیبی خدمات کے ستائش میں جاپان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ”Order of the Rising Sun“ دیا ہے۔

ان میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل ہیں۔ پانچ غیر ملکی نامورجامعات سے آپ بطور مہمان پروفیسر اور ریسرچ فیلو کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ آپ مقتدر قومی زبان کے تحت شائع ہونیوالے پرچے ’اخبار اردو‘ کے پہلے مدیر بھی رہے۔ آپ نے اشاریہ کلام فیض، اقبال اور جدید دنیاے اسلام، پاکستان میں اردو تحقیق، پاکستانی زبان و ادب، دکن اور ایران، فتح نامہ ٹیپو، جہات جہد آزادی، پاکستانی غزل، تحریک آزادی میں اردو کاحصہ، امیر خسرو فرد اور تاریخ، اقبال اور جدید دنیاے اسلام جیسی کتابیں تالیف و تصنیف کرکے تاریخ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).