میں نے نواز شریف کو موت سے کیسے بچایا؟


پاکستان کے سیاسی اور صحافتی منظر نامے پر گزشتہ کئی ہفتوں سے میاں نواز شریف کی دوبارہ مبینہ ”ڈیل“ یا ”ڈھیل“ کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ اور یارلوگ بڑی دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لا رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے درمیان گفتگو کے بڑے چرچے ہوئے۔ اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ماضی میں اپنے والد کی طرح آئندہ کسی ایسی ڈیل کا حصہ نہ بنیں۔ حالانکہ کسی حریری نامی شخص کا اس ڈیل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ابھی یہ بحث جاری تھی کہ اسی دوران مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوج کے 40 سے زائد فوجیوں کے ایک خودکش حملے میں ہلاکت کی خبر آ گئی۔ اور اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بادل 20 سال پہلے کارگل جنگ کے بعد سے دوبارہ منڈلانے شروع ہو گئے ہیں۔

جب دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی درخواست پر امریکی صدر بل کلنٹن کی مداخلت سے یہ جنگ ٹلی اور پاکستان کارگل سے غیر مشروط طور پر اپنی فوجیں واپس بلانے پر راضی ہوا۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کا خمیازہ نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف سے محاذ آرائی کے باعث 12 اکتوبر 1999 ء کو اپنی حکومت کے خاتمے کی صورت برداشت کرنا پڑا۔ بعدازاں نواز شریف طیارہ سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ چودہ ماہ جیل میں رہنے کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن دوبارہ پس پردہ رہ کر مدد کو آگے بڑھے اور نواز شریف کو کنگ عبداللہ کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کے چنگل سے نکال کر سعودی عرب لے گئے۔

”نواز شریف بچاؤ“ مشن کیسے کامیابی سے پایہءتکمیل تک پہنچا؟ آئیے اس مشن کے انچارج بروس ریڈل (Bruce Riedel) کی زبانی یہ ساری کہانی سنتے ہیں۔ پہلے بروس ریڈل کا تھوڑا سا تعارف ہو جائے۔

66 سالہ بروس ریڈل امریکی سی آئی اے میں بطور اینالسٹ اور کاؤنٹر ٹرئیزم ایکسپرٹ، اپنی 29 سالہ مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد 2006 ء میں رئٹائر ہو گئے۔ اس دوران وہ چار سابق امریکی صدور، جارج ہنری بش (بش سنئر) بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اُبامہ کے مشیر اور سپیشل اسسٹنٹ برائے مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیاء امور رہے۔ 1997 تا 2001 ء وہ صدر بل کلنٹن کے سپیشل اسسٹنٹ برائے نیشنل سیکورٹی کونسل تھے۔

2008 ء میں صدر ابامہ کی صدارتی الیکشن مہم میں پالیسی مشیر کے علاوہ فروری 2009 ء میں صدر ابامہ نے انہیں چئر آف وائٹ ہاؤس ریویو کمیٹی برائے پاکستان اور افغانستان فارن پالیسی بنایا۔

بروس ریڈل کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ علاوہ ازیں واشنگٹن کی جان ہپوکن یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانس سٹڈیز میں پروفیسر ہیں۔ اور آج امریکی تھنک ٹینک بروکنگس انٹیلی جنس میں پراجیکٹ ڈائریکٹر اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ہی سبان سنٹر برائے مڈل ایسٹ پالیسی میں سنئر فیلو کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ آج کل اسرائیل نیوکلیئر ڈاکٹرائن پر کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔

بروس ریڈل نے بھارت اور پاکستان کے 1998 ء میں ایٹمی دھماکے کرنے کی اندرونی کہانی سمیت کارگل جنگ، پاکستان کی جانب سے غیر مشروط جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی اور نواز شریف کی سعودی عرب ڈیل کی ساری روداد بطور ایک چشم دید کے اپنی کتاب ”Avoiding Armageddon: America، India And Pakistan To the Brink and Back“ میں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔

بروس ریڈل کے مطابق 1998 ء میں امریکہ کو ایسی اطلاعات تھیں کہ بھارت ایٹمی دھماکے کر سکتا ہے۔ اسی بنا پر ایک اعلیٰ سطحی تین رکنی وفد نے بھارت کا دورہ کیا۔ تاکہ بھارت کو ایسے دھماکوں سے باز رکھا جا سکے۔ بطور صدر کے سپیشل اسسٹنٹ برائے ساؤتھ ایشیاء امور، مجھ سمیت اس وفد میں ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ سٹروب ٹالبوٹ اور اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ساؤتھ ایشیاء کارل انڈرفرتھ شامل تھے۔ بھارت کے وزیراعظم واجپائی نے وفد کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت ایٹمی دھماکے نہیں کرے گا۔

تاہم ہمیں بھارت سے واپس آئے ہوئے ابھی بمشکل ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مئی 1998 ء میں بھارت نے یکے بعد دیگرے کئی ائٹمی دھماکے کر دیے۔ بھارت کے اس حیران کن اقدام پر صدر بل کلنٹن سی آئی اے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام ایسے متعلقہ افراد پر سخت برہم تھے جو بھارت کے ساتھ مذاکرات میں شامل تھے۔ صدر کا موقف تھا کہ اب بھارت پر اس کی فوجی اور اقتصادی امداد سمیت دیگر پابندیاں لگانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے بھارت نے اس موقع پر اپنے ایٹمی دھماکے کرنے کا جواز پاکستان کی بجائے چین کو قرار دیا تھا۔

بروس ریڈل کے مطابق بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اب توقع تھی کہ پاکستان بھی ایسا ضرور کرے گا۔ لہذا پاکستان کو اس کے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے واشنگٹن سے جو ٹیم پاکستان بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا، میں بھی بطور نیشنل سیکورٹی کونسل کے مشیر اور صدر بل کلنٹن کے سپیشل اسسٹنٹ فار ساؤتھ ایشیاء ایک رکن کے اس ٹیم کا حصہ تھا۔ دوسرے دو اراکین سٹروب تالبوٹ (ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ) اور کارل انڈر فرتھ (اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ساؤتھ ایشیاء) شامل تھے۔ ہمیں یہ ”مشن ایمپوسیبل“ دیا گیا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھا جائے۔

بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ہم تینوں امریکی سنٹ کام کے جنرل انتھونی زینی کے خصوصی جہاز پر پاکستان پہنچے۔ اس وقت امریکی ایئر فورس کے پاس غالباً یہ سب سے قدیم ترین طیارہ تھا۔ جو بالآخر ہمیں امریکی شہر ٹیمپا بے سے اسلام آباد پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔

اسلام آباد کا ماحول، خصوصاً وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ سخت سراسیمگی کے عالم میں تھی۔ پاکستانی میڈیا، اہم ایلیٹ سمیت پاکستان کے سائنسدان خصوصاً ڈاکٹر اے کیو خان ایٹمی دھماکے کے لیے گرین سگنل چاہ رہے تھے۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ دھماکوں کے لیے چیخ رہا تھا۔ ایسے ماحول میں ہم نے محسوس کیا کہ صرف ایک آواز تھی، اور وہ تھی آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی۔ وہ واحد شخص تھے جو ہمیں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ محسوس ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پاس اب ایٹمی دھماکے کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر اب اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اپنے ہی ملک میں اپنی کریڈبلٹی کھو بیٹھیں گے۔

ایسے وقت میں ہمارے لیے پاکستان میں کوئی خوش گوار صورتحال نہ تھی۔ وزیر خارجہ گوہر ایوب خاں نے سٹروب تالبوٹ کو بتایا تھا کہ اب جبکہ بھارت ایٹمی دھماکے کر کے دینا کی چھٹی ایٹمی قوت بن چکا ہے ہے۔ اب یہ دوڑ نہیں رکے گی۔ بلکہ بھارت اب آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی ڈیمانڈ کرے گا۔

بروس ریڈل کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں جو فوری امید نظر آئی وہ یہ تھی کہ نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے آخری امید کے طور پر پاکستان کو اقتصادی اور فوجی امداد کی آفر کی جائے۔ ایف 16 طیاروں سمیت پریسلر ترمیم کو ختم کرنے اور عالمی سپورٹ کی یقین دہانی کرائی جائے۔ ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے اس موقع پر نواز شریف کو 6 بلین ڈالر کی امداد کی پیشکش کی گئی۔ اور امریکہ کے سٹیٹ وزٹ کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

جبکہ نواز شریف کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرے اور صدر کلنٹن اپنا آئندہ دورہ صرف پاکستان کا کریں۔ وہ بھارت کا دورہ نہ کریں۔

بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کا اپنا دورہ ختم کرکے واپس روانہ ہوتے۔ نواز شریف نے فوج اور سائنسدانوں کو ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے اجازت دے دی۔ اس طرح پاکستان نے مئی 26 اور مئی 30 کو اپنے ایٹمی دھماکے کر دیے۔

اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اسرائیل اور بھارت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ جبکہ یہ صرف ”سموک سکرین“ تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2