فیمنزم، گلوریا اسٹائنم اور سی آئی اے


کل سے سوشل میڈیا میں آزادی عورت مارچ پر کے نام پر جو خرافات ہوئی ہے اس کا چرچہ ہے۔ ممکن نہیں کہ آپ فیمنزم کے نام پر برپا کی جانے والی تحریک اور اس کے چار ادوار سے واقفیت رکھتے ہوں اور گلوریا اسٹائنم کو نہ جانتے ہوں۔ سوشل میڈیا دور میں چلائی جانے والی فیمنزم کی تحریک دراصل فیمنزم کی چوتھی لہر ہے۔ گلوریا اسٹائنم ستر کی دہائی میں اٹھنے والی فیمنزم کی دوسری لہرکو برپا کرنے میں مرکزی کردار رکھتی ہیں۔

تعلیم کے بعد گلوریا کی صلاحیتوں کو دیکھ کرسی ائی نے ریکروٹ کر لیا تھا جس کا وہ ابتدائی دنوں میں اعتراف بھی کرچکی ہیں جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ شاید یہ اعتراف ان سے بے احتیاطی سے ہوگیا تھا کیوں اس کے بعد انہوں نے اپنے کیریر میں اس بات کو ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی اور سی آئی اے کے لیے کیے کام کی نوعیت اور اس کی مدت کو پوشیدہ رکھا۔ سی آئی اے میں انہوں نے انڈیپنڈنٹ ریسرچ سروس نامی پروجیکٹ کے تحت کام کیا اور اس سلسلے میں وہ یورپ میں یوتھ فیسٹول میں شریک ہوتیں اور وہاں لوگوں کی جاسوسی کرتیں۔

ایسے ہی ایک فیسٹول میں جاتے وقت ان کے ساتھ نیویارک میگزین کے ایڈیٹر کلے فیلکر بھی ساتھ کردیے گئے جو سی آئی اے سے تعلقات رکھتے تھے۔ اس ٹرپ میں کلے نے گلوریا کو نیویارک میگزین میں مکمل خود مختاری کے ساتھ کام کرنے کی آزادی کے ساتھ ملازمت دے دی۔ نیویارک میگزین میں رہتے ہوئے گلوریا نے نیویارک میگزین سپلیمنٹ کے طور پر 1972 میں پہلا مس میگزین Ms Magazine شائع کیا جس نے آگے چل کر فیمینزم کی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا۔

بعد میں مس میگزین ایک آزاد میکزین کی حیثیت سے شائع ہونے لگا۔ مس میگزین کی ابتدائی فنڈنگ کیتھرین گراہم نے کی جو فلپ گراہم کی بیوی تھیں۔ فلپ گراہم واشنگٹن پوسٹ کے مالک تھے لیکن یہ ان کا صرف ایک تعارف ہے۔ فلپ گراہم، سی آئی کے آپریشن ماکنگ برڈ کے نگران بھی تھے جس کے تحت تین ہزار صحافی براہ راست سی آئی کے لئے کام کرتے تھے۔ گلوریا اسٹائنم نے ویمنز ایکشن الائینس نامی تنطیم کی بنیاد بھی رکھی جس کو راک فیلرز کی فنڈنگ حاصل تھی۔

مس میگزین نے امریکی معاشرے میں نیوکلیر فیملی کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مس میگزین عورت کے اسقاط حمل کے حق پر تحریک کا علمبردار بن گیا اور بالاخر 1973 کے سپریم کورٹ کے Roe v Wade فیصلے نے امریکہ کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔

گلوریا اسٹائنم اور ان کی قبیل کے لوگوں نے جہاں امریکی معاشرے کو عمومی طور پر تبدیل کیا وہاں خاص طور سیاہ فام خاندانوں کے لئے یہ فیمنزم کی یہ تحریک سب سے زیادہ خطرناک ثاپت ہوئی اورلڑکھڑاتا ہوا سیاہ فام خاندانی نظام جڑ سے اکھڑ گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تقریبا اسی فیصد سیاہ فام بچوں کو اکیلی مائیں پال رہی ہیں اور ان کی زندگی میں باپ کا کوئی وجود نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میلکم ایکس رحمت اللہ علیہ اور مارٹن لوتھر کنگ جونیر کی قیادت میں چلنے والی سول رائٹ تحریک کے بعد جب سیاہ فام لوگوں کو مستقبل کے حوالے سے روشنی کی کرن نظر آرہی تھی تو ایسا کیا ہوا کہ وہ سب خواب بکھر گئَے۔ یقننا گلوریا اس زوال کا واحد سبب نہیں مگر وہ سی آئی اے کے تحت چلنے والی اس ہمہ جہت مہم کا حصہ ضرور تھیں جو سول رائٹ موومنٹ کے اثرات زائل کرنے کے لئے چلائی گئی اور خاندانی نظام کو توڑنا، تاکہ بچے ریاست پال سکے، اس کی ایک جہت تھی جس میں گلوریا نے اہم کردار ادا کیا

1979 میں مس میگزین نے مشل والس نامی ایک سیاہ فام خاتون کو اپنے کور کی زینت بنایا۔ مشل والس نیوزویک میگزین میں کام کرتی تھیں مگر ان کو کوئی فرد نہیں جانتا تھا۔ نیوزویک بھی آپریشن ماکنگ برڈ والے واشنگٹن پوسٹ کے مالک فلپ گراہم کی ملکیت تھا۔ مشل والس نے ایک کتاب Black Macho and Myth of Black Superwoman لکھی تھی۔ گلوریا نے گمنام مشل کو اپنے میگزین کی زینت بناتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب اسی کی دہائی کا تعین کرے گی۔

اس کتاب میں میں مشل والس نے سیاہ فام مردوں کو تنقید کا نشانہ بنایہ تھا اور یہاں تک کے کچھ سالوں پہلے اٹھنے والی سول رائٹ موومنٹ پر سوالات اٹھانا شروع کردیے تھے اور اس کو مردوں کی ایک تحریک قرار دے دیا گیا۔ بہرحال گلوریا کی پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی۔ آنے والا وقت میلکم ایکس کا نہیں اوپرا ونفرے کا تھا۔ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے سیاہ فاموں میں سول رائٹ موومنٹ کے نتیجے میں جو امیدیں پیدا ہوچلی تھیں وہ ملیا میٹ ہوئیں اور اسی کی دہائی سے سیاہ فام خاندانوں کا جو زوال شروع ہوا اس نے رکنے کا نام نہ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).