اپنے وطن سے رخصتی: کچھ تاثرات


لفظوں کے استعمال سے قبل ان کے معنی کا ادراک لازم ہے۔ ہم بولتے، ہیں سنتے ہیں، لکھتے ہیں مگر معنی اور مفہوم کو درگزر کرتے ہیں۔ اور جب ”سمجھ“ آتی ہے تو مادہ، مادے میں اور ہایڈروجن فضا میں دوبارہ سے کشت میں لگ جاتی ہے۔ بہر حال جب تک اس ہم ”لائف فارم“ میں ہیں، ہمارے پاس کچھ استحقاقی اختیارات ہیں۔ مبادا ان کا اختیار اس حالت جمال تک ہی ہو؛ جیسا کہ ”لا آف دی لینڈ“ ہوتا ہے۔

فلائٹ لاہور ائرپورٹ جو میرے پاکستان میں نئے گھروندے کے بالکل سامنے ہے سے نہیں، بلکہ اسلام آباد کے بے نظیر ائرپورٹ سے ترکی ”استنبول“ اور پھر وہاں سے امریکہ، ”میری لینڈ“ واشنگٹن جانی تھی۔ اس کی کیا وجہ تھی مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں سمجھی یہ بھی عطاؤوں میں سے ایک عطا تھی۔ مگر بظاہر بہت کشٹ، بھاگم بھاگ رہی، ایف سی کالج کے مشاعرے کو نبٹا کر ڈیفنس پہنچی اور پھر منٹوں میں سامان کی فائنل پیکنگ اور گاڑی گیراج میں بند کر کے ٹھوکر نیاز بیگ ڈائیو بس کے اڈے پرپہنیچ کر آٹھ بجے کی بس پکڑنی تھی کہ میری فلائٹ کا وقت رات تین بجے تھا۔

جب آٹھ بجنے میں دو منٹ پر ”اوبر سروس“ کے ذریعے ٹرمینل پہنچی تو بس چھٹنے کو تیار تھی سامان ادھر بس کے آگے پھینک کر ہوا کی تیزی سے بھاگی، اردگرد بیٹھے لوگ مجھے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے لیکن کاؤنٹر پر بیٹھے ایک دو نوجوان فورا میرے ہمراہ بس میں آگئے اور وہیں میرا ٹکٹ بنا دیا اور یوں آٹھ بجے والی بس آٹھ بجکر سات منٹ پر ٹرمینل سے باہر سڑک پر تھی۔ خیال تھا کہ وہاں سے ائرپورٹ ڈائیو سروس پر جاؤں گی مگر میرے ایک بہت پیارے فیملی فرینڈ ڈاکٹر طاہر کو معلوم ہوا تو وہ وعدے کے مطابق وقت سے پہلے ہی راولپنڈی ٹرمینل پر اپنی بیگم کے ہمراہ آگئے۔

جب بس راولپنڈی پہنچی تو سامنے ان کی گاڑی اور ان کو دیکھ کر مجھے وہ رات کے ساڑھے بارہ بجے گھپ اندھیرے میں کسی فرشتے سے کم نا لگے۔ گاڑی میں سامان رکھتے ہی انہوں نے اپنے گھر کے باغ کے تازہ فروٹ پیش کیے جن میں لوکاٹ کر ایک عجیب اداسی اور وطن سے بے وطنی کا احساس مزید بڑھ گیا۔ وہ بولے! جاگتے قانون کے شہر کے پہرہ دار راولپنڈی جو ابھی سویا نہیں جمہوریت کی چادر میں منہ لپیٹ کر اوندھے منہ پڑا ہوا ہے، اس کی سیر کرواؤُں۔ یہ بھی کہنے لگے ”سوئے شہر میں جو دیکھ سکتے ہیں وہ جاگتے میں نہیں“۔ گاڑی اندھیرے میں رواں دواں مگر یہ کیا اندھیرے میں ترتیب، اور روشنی میں انتشار کا ظہور، یہ ممکن کیسے ہوا، سوئے جاگے اور جاگے ہوئے سوئے پڑے ہیں یعنی احساس کا جاگنا ترقی کی ضمانت ہے ایسے میں سیاست اور معیشت انسانوں پر حکومت نہیں ان کی خدمت گار ہوتی ہے۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).