معاشی بحران کا گرداب


پاکستان عملی طور پر ایک بڑے سنگین معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ بالخصوص عام آدمی اس وقت معاشی بدحالی کی بنیاد پر خود کو سب سے زیادہ مشکل اور تنہا محسوس کرتا ہے۔ یہ بحران محض چند ماہ کا نہیں بلکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہماری معاشی اور سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس نے ملک کو مضبوط معیشت کی بنیاد فراہم نہیں کی۔ عمومی طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر ہم کوئی معاشی استحکام بھی پیدا نہیں کرسکیں گے۔

اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو حزب اختلاف یا اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ایک بڑا چیلنج معاشی میدان میں درپیش ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت اس معاشی بحران میں عام یا کمزور آدمی کو فوری کوئی ریلیف نہ دے سکی تو اس سے جہاں حکومت کی ناکامی کا تصور ابھرے گا وہیں حکومت اور عوام کے درمیان بھی واضح خلیج پیدا ہوگی۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے معاشی عمل کی ترقی میں سیاست کو بہت زیادہ الجھا دیا ہے۔ محاز آرائی پر مبنی سیاست کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم معاشی امور سے جڑی سنگینی کے باوجود اتفاق رائے پر مبنی کوئی ٹھوس معاشی پالیسیاں اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جذباتیت اور انقلاب کے خوشنما نعروں کی بنیاد پر معاشی ترقی کا عمل ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ٹھوس بنیادوں پر غور وفکر اور ایک مربوط پالیسی کو بنیاد بنا کر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈت بحران سے نمٹنے کے لیے ”معاشی میثاق ماہدہ“ کی بات پر ذور دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب سیاست اور اس سے جڑ ا طرز عمل ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور سیاست میں تدبراور فہم فراست کا فقدان ہو تو عملا وہاں نہ تو سیاست چل سکتی او رنہ ہی معیشت کو چلایا جاسکتا ہے۔

جو بحران کی کیفیت ہے اس میں یقینی طور پر موجودہ حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ اس حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ تاثر دیا تھا کہ اس کے پاس معاشی بحران کا حل اور روڈ میپ موجود ہے۔ لیکن جس انداز سے اس حکومت نے ابتدائی طو رپر معیشت کو چلایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ سابقہ حکمران جماعتیں بھی معاشی امور میں کوئی بڑا ہوم ورک کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں یا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں اس میدان میں ہوم ورک کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں وہ ہی کچھ کرنا ہے جو عالمی مالیاتی اداروں کے بڑے سیاسی فرئم ورک میں آتا ہے۔ سابقہ حکمران جماعتوں نے بھی ایک ردعمل کی پالیسی کے تحت معاشی عمل کو آگے بڑھایا ا و راس کا نتیجہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے شدید ترین بوجھ کی صورت میں سامنے ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کوئی ایک حکومت اس ساری بدحالی کی ذمہ دار ہے تو یہ عملا درست فکر نہیں ہوگی۔

یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے معاشی میدان میں مربوط پالیسی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے دو کام کیے۔ اول چل چلاؤ کی پالیسی جس سے بس نظام چلتا رہے اور دوئم عالمی دنیا اور اداروں پر حد سے بڑھتا ہوا انحصار کی پالیسی۔ اس پالیسی نے ہمیں معاشی عمل میں مفلوج بنادیا او رہمیں جو بڑے بڑے معاشی تناظر میں کڑوے یا مشکل فیصلے کرنے تھے اس پر سیاسی سمجھوتہ کرکے یا ذاتی مفادات کو تقویت دے کر وہ کچھ نہ کیا جو ہمیں حکومتی سطح پر درکار تھا۔

ایک مسئلہ ہر حکومت کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ناکامی کو قبول کرنے کی بجائے سابقہ حکومتوں پر ملبہ ڈال کر سیاسی ماتم کرنے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ اقتدار میں آئے ہیں او رلوگوں نے آپ کو مینڈیٹ دیا ہے تو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سابقہ حکومت کی ناکامی ہی کی بنیاد پر نئی حکومت کا چناؤ سامنے آتا ہے۔ اچھی اور بہتر حکومت ان ہی برے معاشی حالات میں سے اپنے لیے او رملک کے لیے ایک محفوظ راستہ تلاش کرتی ہے۔ جب ہم خود ملک میں اندرونی او ربیرونی سرمایہ کاری نہیں بڑھائیں گے یا ملک میں ٹیکس کے نظام کو شفاف نہیں بناتے یا اپنی معیشت کو زیادہ فعال نہیں کرتے یا اداروں کی صلاحیت او ران کی فعالیت کو یقینی نہیں بناتے تو ہم کیسے اپنی معاشی حالت کو بہتری کی طرف لاسکتے ہیں۔

معروف معاشی دانشور اکبر ایس زیدی نے اپنے ایک مضمون میں درست لکھا ہے کہ ”ہماری معاشی پالیسی کی بڑ ی بربادی کی ذمہ دار محض آئی ایم ایف نہیں بلکہ ہماری بالادست حکمرانی سے جڑ ا طبقہ ہے۔ کیونکہ ان کے بقول یہ موثر گروہ جو بہت زیادہ منظم بھی ہے او ربا اثر بھی اپنے مضبوط اثر نفوز کی بنیاد پر ایک مخصوص گروپ یا اپنی ذاتیات پر مبنی معاشی ترقی کو ہی فوقیت دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں معاشرے میں موجود کمزور طبقات کی ترجمانی کوئی نہیں کرتا او ریہ طبقہ معاشی سطح پرزیاد بدحال او راستحصال کا شکار ہوتا ہے۔

میں ہمیشہ کہتا ہوں کے طبقاتی بنیاد پر چلائی جانے والی معیشت کبھی بھی منصفانہ او رشفاف نظام کو یقینی نہیں بناسکتی۔ یہ جو روایتی طور پر ہم معاشی میدان میں سرگرداں ہیں اس سے کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔ ہمیں کینسر جیسے مرض کا علاج ڈسپرین کی بجائے غیر معمولی اقدامات سے کرکے ہی ملک کو معاشی گرداب سے نکالنا ہوگا۔

پنجاب یونیورسٹی شعبہ معاشیات کے سربراہ اور اکیڈمک سٹاف ایوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتازانور چوہدری جو خود معاشی امو رپر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ جذباتیت کی بجائے ٹھوس حقایق او رشواہد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ صرف ماہر معاشی امور ہی نہیں بلکہ معیشت کو سیاست سے جوڑ کر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مجھے کئی مجالس میں ان کی معاشی امور پر گفتگو کو سننے کا موقع ملا تو خوب مدلل گفتگو کرتے ہیں۔

ان کے بقول اس وقت ہماری معیشت کھوکھلی بنیادوں پر کھڑی ہے اور رفتہ رفتہ کمزور او رمحدود ہوتی جارہی ہے۔ ایسی صورتحال میں قومی خود مختاری یا قومی معیشت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ چار نکات ایسے ہیں جو ہماری معاشی بدحالی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں اندرونی او ربیرونی قرضوں کا بوجھ، پیداواری شعبہ کا محدود او رکمزور ہونا بالخصوص زراعت اور صنعت کے شعبہ کی بدحالی، انسانی وسائل کا بحران او ربڑھتی ہوئی نئی نسل میں بے روزگاری اور وسائل او رآمدن کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت پر مبنی سماجی او رمعاشی ناہمواریاں شامل ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری کے مطابق ہمارا حکمران طبقہ لمبے عرصے کی معاشی پالیسیوں یا اصلاحات پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اس کی ساری توجہ محض انتخابات یا حلقہ کی سیاست تک محدود ہوتی ہے۔ وہ ووٹ کی بنیاد پر اپنے معاشی یوٹرن لیتا ہے او رایسے فیصلے بھی کرتا ہے جو معاشی سطح پر ہمیں نئی نئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ حکومت کا یہ عمل عمومی طور پر ٹھوس پالیسی کا راستہ روکتا ہے او ر ملک میں عام آدمی کی زندگی او رطرز عمل کو او رمشکل بنادیتا ہے۔

یہ جو ملک میں ہمیں انتہا پسندی، دہشت گردی یا نفرت سمیت بغاوت کی سیاست نظر آتی ہے اس کی وجہ بھی معاشی عدم استحکام اور معاشی ناہمواریاں اور تفریق کے پہلو ہیں۔ بالخصوص جب آپ کے پاس نئی نسل کے لیے کوئی مربوط سطح پر معاشی پالیسی یا روزگار نہیں ہوگا تو یہ نئی نسل کا بڑا طبقہ خود ایک بڑا خطرے کی علامت اختیار کرے گا۔ ان کے بقول ہمیں اس وقت ایسی لیڈر شپ کا سامنا ہے جو بہت زیادہ دور تک دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

ایک اچھی قیادت ہی ہمیں معاشی اور سیاسی بحران سے نکال سکتی ہے، مگر یہ کیسے آئے گی، خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا جہاں معاشی ایجنڈا ہے وہیں اس کا سیاسی ایجنڈا بھی ہے اور اس کی ووٹنگ پیٹرن میں امریکہ کا پلڑا بھاری ہے او را س کے سیاسی ایجنڈے میں طاقت ور ممالک کی خارجہ پالیسی کا فرئم ورک بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پالیسی میں دنیا کے مختلف ممالک کے حالات کو سمجھنے کی بجائے ان پر اپنا فریم ور ک مسلط کرتا ہے جو خود اس کی اپنی پالیسیوں کو بھی ناکام بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

لیکن پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری کا خیال ہے کہ حکومتی سطح پر اب انقلاب سے ہٹ کر حقایق کو بنیاد بنا کر جو نئی معاشی ٹیم رکھی گئی ہے اس سے امیدہے کہ فوری مسائل کم ہوں گے، لیکن مستقل معاشی مسئلہ موجود رہے گا۔ کیونکہ اس کے لیے ہمیں ادارہ جاتی بنیادوں پر ایسی معاشی پالیسیوں کو سامنے لانا ہوگا جس میں عام آدمی کی معاشی حالت کو بہتر بنایاجاسکے او ریہ ہی حکومت کی ساکھ کو قائم کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).