ہنس گئی تے پھنس گئی


عورت کاخمیر وفا، محبت، ایثار و قربانی کے جذبوں سے گندھا ہوا ہے اور مذہب نے بھی جو عورت کو عزت کا مقام عطا کیا ہے اس سے کسی صورت انکار ممکن نہیں، انسان سے عورت کا پہلا تعارف ماں کے روپ میں ہوتا ہے، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عورت کس طرح خود کو موت کے منہ میں ڈال کر انسان کو دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے، عورت کا دوسرا تعارف بہن کی صورت میں ہوتا ہے جس کی محبت کا لفظوں میں اظہار مشکل ہے، پھر انسان بچپن سے سن بلوغت میں قدم رکھتا ہے اور جوان ہو کر انسان کا عورت سے بیوی کی صورت میں تعارف ہوتا ہے تب تک انسان اس ہستی کے سب رنگ دیکھ چکا ہوتاہے اور پھر ایک حسین مگرنازک رشتے سے منسلک ہوجاتاہے، زندگی کے نشیب و فراز اسی ہستی کے ساتھ گزرتے ہیں۔

ان تمام رشتوں اور مراحل کے ساتھ ایک عورت انسان کو گھر سے باہر بھی ملتی ہے جس سے بظاہر اس کا خونی رشتہ نہیں ہوتا مگر اولاد آدم کی نسبت سب سے اہمیت کی حامل ہوتی ہے، بس بات شعور کی ہے۔ گندے پانی سے وجود پانے والا انسان جب سڑک پر اس عورت کو دیکھتاہے تو پھر اسے عورت سے قائم تمام مقدس رشتے بھول جاتے ہیں اور اس میں نجانے ایک شیطان کی روح کہاں سے آبھٹکتی ہے؟ اسی حوالے سے روزانہ ہی نجانے کتنے دلخراش واقعات پیش آتے ہیں، بعض دفعہ یہ عورت اس مرد سے کتنی غیر محفوظ ہوتی ہے جس کے جنم میں بھی ایک عورت ہی وجہ بنتی ہے۔

یہ چند سال قبل کی بات ہے، مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ کوئی بات اسے پریشان کر رہی ہے اور وہ کچھ بتانا چاہتی ہے، پریشانی اس کے چہرے پرعیاں تھیں مگر جب بھی اس نے بات کرنے کی کوشش کی، کوئی نہ کوئی مہمان آ گیا اور وہ دل کا بوجھ جو اس کے لیے ذہنی دباؤ کی صورت میں بیماری کی شکل اختیار کرنے کے قریب تھا، ہلکا ہونے میں کافی دن لگ گئے۔ پھر ایک دن اس کا موبائل فون پر میسج آیا کہ ”میں ایک ٹینشن میں ہوں، سمجھ نہیں آرہی کہ کس طرح بیان کروں؟

” میرے استفسار پر اس کا دوسرا میسج آیا کہ“ ایک اَنکل ہر روز میرا پیچھا کرتے ہیں اور بس سٹاپ تک جان نہیں چھوڑتے ”مجھے یہ میسج پڑھ کر انتہائی تشویش ہوئی، میں معاملے کی سنگینی کو بھانپ چکا تھا اس لیے اسے یہی کہا کہ مجھے کل دکھا دینا، میں اگر کچھ کر سکا تو ضرور کروں گا۔ مجھے اگلے دن کابے چینی سے انتظار تھا کہ وہ انکل کون ہو سکتے ہیں جنہوں نے ایک عورت کاسڑک پر چلنا مشکل بنا رکھاہے۔

اگلے دن آتے ہی اس نے مجھے انکل کی نشاندہی کی تو میں ہکا بکا رہ گیا کہ وہ پانچ وقت کا نمازی آدمی تھا، صوم و صلوۃ کے پابند اس شخص کی میں نے کافی بارگفتگو سن رکھی تھی جو نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے منع کرنے کی باتیں کیا کرتا تھا، مجھے خاتون کی بات پر یقین کرناتھوڑا مشکل ہورہا تھا مگر اس نے کہا کہ“ میں سچ کہہ رہی ہوں، اگریقین نہ آئے تو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ”میں نے بھی جلد بازی میں کوئی قدم اٹھانے کی بجائے وقت مقررہ پر تھوڑا دور کھڑے ہو کر تسلی کی تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیاکہ شکایت سچی تھی اور وہ انکل خاتون کا پیچھا کرتے کرتے بس سٹاپ تک گئے، تب تک ان کی ٹرائیاں جاری رہیں جب تک بس نہیں آگئی۔ خیر میں نے کسی طرح انکل سے اس خاتون کی جان چھڑائی۔

اس واقعہ کے بعدمیرے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا کہ بعض عورتیں کتنی مجبور ہوتی ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کوبھی اس وجہ سے روک نہیں سکتیں کہ کہیں اس کے اپنے ہی اسے قصور وار نہ ٹھہرادیں اورمعاشرہ مرد کی بجائے عورت کو ہی فساد کی جڑ نہ قراردیدے۔ اسے اپنے ہی لیے انصاف لینے کے لئے سب سے پہلے اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں کو اعتمادمیں لیناپڑے گا۔ اس تگ ودو کے بعد مجرم تو کیا پتہ کیفر کردار تک پہنچ جائے مگر تب تک معاشرہ اس کے کردار کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکال چکا ہو گا۔

کتنے ہی مقررین، لکھنے والے، اساتذہ، این جی اوز اورعورت کی عزت کے علمبردار بھی اپنی ذات کے قول و فول کا تضاد ابھی تک ختم نہیں کرسکے پھر عورت کو معاشرے میں مقام دیناکیسے ممکن ہو گا، شاید یہی وجہ ہے کہ عورت اب مردوں کے اس معاشرے سے بیزار ہو کرخود ہی اپنے لیے سڑکوں پر آ گئی ہے اور کہیں عورت مارچ کر رہی ہے تو کہیں سیمینارز میں اپنے حقوق کا مطالبہ کررہی ہے۔

مجھے ان لوگوں پر بھی اعتراض ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام نے توعورت کو مقام دیاہے، عورت خود ہی ان اصولوں پرعمل نہیں کررہی تو اب کیا کریں، اگر وہ خود غلط کرے گی توپھر دوسرا ٹھیک کیسے کرسکتاہے۔ ایسے لوگوں کو سیرت النبیﷺ اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص اپنی غلطی کا جواز یہ نہیں پیش کرسکتا کہ فلاں کر رہا ہے تو وہ کیوں نہ کرے۔ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ معاشرے میں کچھ کردارہی ایسے ہوتے ہیں کہ جومردوں کے طبقے کو بدنام کررہے ہیں جنہیں خوبصورت لڑکی دیکھ کرخود پرکنٹرول نہیں رہتا اور وہ کوئی نہ کوئی شیطانی کر بیٹھتے ہیں۔

سب لڑکیاں منہ سی کرچلنے والی نہیں ہوتیں، معاشرے کی بہتری، خوبصورتی اور ترقی مرد و خواتین دونوں کی مرہون منت ہے اس کے لیے محفوظ اورخوشگوارماحول ضروری ہے، خود احتسابی کریں اورسوچیں کہ یہ رویے، یہ سوچ اوریہ اعمال انسانی نہیں بلکہ حیوانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایاہے تو انسان کو بھی خود کوپہچناننے کی ضرورت ہے تا کہ وہ ”ہنس گئی تے پھنس گئی“ جیسے فضول مواقع تلاش کرنے کی بجائے سیدھی راہ چلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).