پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال: کیا پاکستانی معیشت بہتری کی طرف جائے گی؟


عاصم اعجاز

وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی عاصم اعجاز خواجہ کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن تعینات کیا تھا تاہم جلد ہی انھوں نے استعفی دے دیا

پاکستان میں معیشت کی حالیہ ابتری اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے نئے قرضوں اور غیر ملکی امداد کے حصول کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ جیسے سوالات سے بات ’کیا واقعی بہتری ہو گی؟‘ اور ’ہو گی تو کب تک؟‘ پر پہنچ چکی ہے۔

کیا بڑھتی ہوئی مہنگائی تھم پائے گی؟ اور کب تک؟ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر دوبارہ بڑھا پائے گا؟

کب تک پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو انکم ٹیکس کے ساتھ ساتھ بالواسطہ محصولات کی مد میں ماہانہ آمدن میں سے اضافی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا؟

کیا واقعی موجودہ حکومت ایسے افراد کو محصولات کے دائرے میں شامل کر پائے گی جو کماتے تو لاکھوں میں ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے؟

یہ بھی پڑھیے

’یہ تو عام آدمی کا تیل نکال رہے ہیں‘

اخراجات بڑھ رہے ہیں، تنخواہ نہیں۔۔۔

پاکستان میں مہنگائی، برطانیہ میں سستے پیکج، ماجرا کیا ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں قائم موجودہ حکومت نے حال ہی میں اپنا ایک سال مکمل کیا ہے۔ ان کا دعوٰی ہے کہ ’معاشی مشکل کا حالیہ دور ناگزیر تھا۔۔۔اچھے دن زیادہ دور نہیں۔ جلد ہی پاکستان کی معاشی صورتحال پھر سے بہتر ہو جائے گی؟‘

تاہم سوال وہی ہے کہ کیسے؟ اس حوالے سے کیا معاشیات کے اشارے حوصلہ افزا ہیں؟

بی بی سی نے ایسے کئی سوالات ایک حالیہ گفتگو میں ماہر معاشیات عاصم اعجاز خواجہ کے سامنے رکھے۔

عاصم اعجاز

’پاکستان کے معاشی مسائل موجودہ حکومت یا گذشتہ حکومت کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیاد دہائیوں پرانی ہے‘

گذشتہ وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی اپنی سربراہی میں جو اکنامک ایڈوائزری کونسل قائم کی تھی، عاصم اعجاز خواجہ بھی اس کے رکن مقرر ہوئے تھے۔ تاہم جلد ہی اپنے ساتھی ماہر معاشیات اور کونسل کے رکن عاطف میاں کے ساتھ ہی انھوں نے کونسل کو خیر بار کہہ دیا تھا۔

امریکہ کی اعلی ترین یونیورسٹی میں سے ایک، ہارورڈ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے عاصم اعجاز خواجہ آج کل ہارورڈ کینیڈی سکول میں انٹرنیشنل فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ کے پروفیسر ہیں اور پاکستان میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ یعنی سرپ کے بانیوں میں شامل ہیں۔

ان کی گفتگو کا خلاصہ پاکستان کی معاشی حالت کی جلد بہتری کے حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا تصویر پیش نہیں کرتا۔

‘حالات تو بہتر نہیں ہیں’

ان کا کہنا تھا کہ وہ پشین گوئی نہیں کر سکتے تاہم پاکستان کی معیشت کی بحالی میں کتنا وقت لگے گا۔ ‘ہمیں اس حکومت کو بھی اور اس کے بعد اگر کوئی حکومت آتی ہے اسے بھی وقت دینا چاہیے۔’

تاہم ان کا موقف ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

‘کل کو پتا نہیں کون پکڑا جائے گا’

عاصم خواجہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے مبینہ ‘کرپشن کرنے والوں کے احتساب کے پلیٹ فارم کا بغیر سوچے سمجھے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال پاکستانی معیشت کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کئی ایسی چیزیں ہو رہی ہیں کہ ‘آپ سمجھتے ہیں کہ کل کو پتا نہیں کون پکڑا جائے گا۔ اگر آپ نے یہ خدشہ پیدا کر دیا تو یہ معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے ‘انصاف اور کرپشن۔ یہ بڑا اچھا پلیٹ فارم ہے کہ جس نے اس قوم کا پیسہ لُوٹا اس کا ہم باقاعدہ (احتساب) کریں گے۔’

‘تاہم اگر ہم اس کو بغیر دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے یا بلا تفریق استعمال کریں گے، اس سے ہم غیر یقینی کی صورتحال پیدا کریں گے اور اس غیر یقینی کی صورتحال کا زیادہ مضر اثر ہو سکتا ہے۔’

ان کا استدلال ہے کہ سرمایہ کاری جس چیز پر سب سے زیادہ ردِ عمل دکھاتی ہے وہ ایک ملک میں غیر یقینی کی صورتحال اور اس کے مستقبل کی سمت ہے۔

‘جو لوگ معیشت کو سمجھتے ہیں وہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کئی بار مسئلہ ہو رہا ہے مگر اچھا سیاستدان یا لیڈر وہ ہے وہ کہتا ہے فکر نہ کریں میں سنبھال لوں گا۔’

عاصم کا خیال ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل موجودہ حکومت یا گذشتہ حکومت کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیاد دہائیوں پرانی ہے۔

لیکن ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا مستقل حل بیرونی امداد میں نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شہری حکومت کو ٹیکس ادا کریں۔

‘میں اس حکومت کو کیوں ٹیکس دوں، مجھے تو کچھ نہیں مل رہا’

عاصم خواجہ کے مطابق پاکستان میں وہ تمام اجزا موجود ہیں جو معاشی ترقی کے لیے ضروری ہیں جیسا کہ سرمایہ یا پیسہ۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کو اگر قرض لینا پڑتا ہے تو یہ پیسہ کہاں، کس کے پاس ہے؟

عاصم کا کہنا تھا کہ پیسہ ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ رہا۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ‘بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں ریاست اور شہری کے درمیان بنیادی معاشی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے یا کمزور پڑ چکا ہے۔’

اس معاشی معاہدے کے تحت ‘ہمارا وعدہ اپنے شہری کے ساتھ یہ ہے کہ آپ ہمیں ٹیکس دیں اور اس کے عوض ہم آپ کو سہولیات دیں گے۔’

اس معاہدے کے ٹوٹنے یا کمزور ہو جانے کی صورت میں ‘دونوں طرف سے آپ ہار جاتے ہیں۔’

کراچی سٹاک ایکسچینج

AFP/Getty Images
‘شہری کہتا ہے کہ میں اس حکومت کو کیوں ٹیکس دوں، مجھے تو کچھ نہیں مل رہا۔ حکومت کہتی ہے کہ میں کیسے سہولیات دوں جب مجھے پیسے ہی نہیں مل رہے’

‘شہری کہتا ہے کہ میں اس حکومت کو کیوں ٹیکس دوں، مجھے تو کچھ نہیں مل رہا۔ حکومت کہتی ہے کہ میں کیسے سہولیات دوں جب مجھے پیسے ہی نہیں مل رہے۔’

ایسی صورت حال کا مصنوعی علاج یہ ہے کہ حکومت کہے گی کہ ‘اب میرے شہری تو مجھے پیسے دے نہیں رہے تو میں اپنا کشکول لے کر کہیں اور جاؤں۔’

تاہم ان کے خیال میں یہ رجحان بنیادی طور پر غلط ہے۔ ’پاکستان کو جو حقیقی سہارا ملے گا وہ پاکستانی شہری ہی دے سکتے ہیں، ٹیکس کے ذریعے۔’

عاصم خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ ان کے خیال میں ایسے میں بیرونی کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔

‘تاہم سوال یہ ہے کہ ہمارے تناظر میں ثالث کون بنے گا؟ کیا وہ آئی ایم ایف بنے گا، کوئی این جی او بنے گی یا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بنیں گے؟ میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے مگر اس کے لیے آپ کو تھوڑا سے اندھا اعتماد کرنا پڑے گا یا پہلا قدم لینا پڑے گا۔’

کیا حکومت زبردستی ٹیکس لے سکتی ہے؟

عاصم خواجہ کے خیال میں ‘زبردستی کبھی ٹیکس نہیں لیا جا سکتا۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ کوشش کر سکتے ہیں، کچھ دیر تک لوگ دے بھی دیں گے لیکن اگر وہ دے بھی دیں تو آپ نے ایک بڑا نقصان کر دیا۔’

اس کی وضاحت میں عاصم کا کہنا تھا کہ فرض کریں آپ کے سر پر بندوق رکھ کر آپ سے ٹیکس نکلوا لیا جاتا ہے۔ اس میں دو مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ بندوق چلی جاتی ہے اور پھر آپ یعنی شہری کہے گا کہ اب موقع ہے اور وہ بھاگ جائے گا۔

‘ہم بندوق سے جو کام کروائیں گے وہ دل کا کام نہیں ہو گا۔ ہمیں دنیا کی گیم کھیلنی ہے، اس سطح پر آنا ہے۔ اس کے لیے ہم زبردستی، دھمکیاں دے کر کام کبھی نہیں چلا سکتے۔’

مہنگائی

AFP/Getty Images
‘آپ زبردستی ٹیکس نہیں لے سکتے۔ آپ کوشش کر سکتے ہیں، کچھ دیر تک لوگ دے بھی دیں گے لیکن اگر وہ دے بھی دیں تو آپ نے ایک بڑا نقصان کر دیا’

کیا مہنگائی کم ہوگی، معیشت بہتر ہو گی؟

‘ابھی تو نہیں۔’ عاصم کا کہنا تھا کہ اگر معیشت کی طرف عدم توجہی کی گذشتہ پچاس سالہ سمت کو ناپیں تو حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ مہنگائی بھی آئے گی، زرِ مبادلہ کی شرح آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہاں جا رہی ہے، تجارت میں ادائیگیوں میں عدم توازن کے مسائل بھی آ رہے ہیں۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اس رجحان کو ہم تبدیل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ ‘اس کو حاصل کرنے کے لیے درکار اجزا موجود ہیں مگر وقت لگے گا۔’

موجودہ حکومت کی کارکردگی

عاصم خواجہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی معیشت کی بہتری کا دارومدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ حکومت تجربہ کر کے اور اس سے سیکھ کر ترقی کرنے کے کتنے مواقع فراہم کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کو ناپیں تو وہ یہی دیکھیں گے کہ ‘کیا آپ اپنی پالیسیوں، اداروں، بیوروکریٹس، سیاستدان، کاروباری رہنما یا عام شہری میں یہ سوچ اور تحفظ پیدا کر رہے ہیں کہ وہ تجربہ کرے، کوشش کرے، ترقی کرے۔۔۔’

ان کے خیال میں ایسا کرنا مشکل ہے، مگر بظاہر (حکومت میں) خواہش تو ہے۔

‘خواہش تو ہر حکومت کی ہوتی ہے۔ اصل امتحان تب ہو گا جب آپ کو کوئی مشکل پیش آئے گی۔ ابھی کچھ مشکلات تو آئی ہیں۔ کچھ جگہوں میں حکومت نے اچھا کیا ہے، کچھ پہ نہیں۔’

موجودہ حکومت کے خلاف مظاہرے

اکنامک ایڈوائزری کونسل کو کیوں چھوڑا؟

عاصم اعجاز کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ ‘عاطف میاں کی ای اے سی میں موجودگی اس کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو ہو گئی تو انھوں نے استعفٰی دے دیا۔ اس موقعے پر مجھے بھی یہ لگا کہ میری موجودگی بھی (ایسی ہی ہو گئی ہے)۔’

‘جب ایک سسٹم یا ڈھانچے میں اعتماد ختم ہو جائے تو آپ کی شراکت کی قدر کچھ خاص نہیں رہتی۔’

یاد رہے کہ عاطف میاں کو ان کے احمدی فرقے سے تعلق کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی طرف سے حکومت پر دباؤ کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑا تھا۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ عاطف میاں کی طرح وہ بھی ہمیشہ سے اور آج تک ملک کے لیے حاضر ہیں۔ عاصم کے خیال میں ‘یہ کہہ دینا کہ میں تو حکومت سے ناراض ہو گیا ہوں، یہ بچگانہ سی بات ہے۔۔۔نہ عاطف کی مدد کرنے کی خواہش کوئی مدھم ہوئی نہ میری ہوئی۔’

انھوں نے کہا کہ وہ اب بھی پاکستان آتے رہتے ہیں اور جس طریقے سے بھی ہو مدد کرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32667 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp