سلمیٰ بروہی کیس: سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے


سندھ کے شہر سیہون میں جج کے چیمبر میں مبینہ زیادتی کا نشانہ بننے والی سلمیٰ بروہی کے کیس کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون طاقتور کے ہاتھ میں کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ سنا ہے، جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ سلمیٰ بروہی کیس کی ٹائم لائن میں پاکستان کے عدالتی نظام پر ایک نظر ڈالیں اور خود ہی بتائیں کہ عوام انصاف لینے کے لئے کہاں جائیں؟

13 جنوری کو سلمیٰ بروہی اور اس کے شوہر کو سیہون پولیس نے گیسٹ ہاؤس سے گرفتار کیا۔ میاں بیوی کو سینئر جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز بھٹو کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج نے بیان ریکارڈ کرانے کے لئے لڑکی کو اکیلے اپنے چیمبر میں بلایا۔ لڑکی نے الزام عائد کیاہے کہ جج نے اس سے جنسی زیادتی کی۔

لڑکی کا عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ میں میڈیکل کرایا گیا، جہاں لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہو گئی۔ میڈیکل رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کے لئے شدید دباؤ ڈالا گیا۔

سیشن جج نے فوری طور پر جوڈیشل مجسٹریٹ کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے سینئر جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز بھٹو کو معطل کر دیا۔

سیشن جج کو انکوائری افسر مقررکیا گیا۔ 18 سالہ متاثرہ لڑکی نے پولیس کو وڈیو بیان ریکارڈ کرایا۔ لڑکی نے ویڈیو بیان میں الزام عائد کیا کہ شوہر اور وکیل کے ساتھ عدالت گئی تو جج نے دونوں کو کمرے سے نکال دیا۔ جج نے اپنے کمرے میں پوچھا، والدین کے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا شوہرکے ساتھ؟ جج سے کہا کہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ جس پر جج نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور کہا کہ شوہر کے پاس جانے کا یہی راستہ ہے۔

زیادتی کیس کے سات روز بعد بھی معطل جج کے خلاف نا تو مقدمہ درج ہوا، نہ میڈیکل ہوا اور نہ ہی اسے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے کہا کہ لڑکی نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا ہے۔ قانونی ماہرین نے کہا کہ اگر مدعی مقدمہ درج نہ کرائے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مقدمہ درج کرائے۔

آٹھ روز بعد سول جج شہدادکوٹ کی عدالت نے لڑکی کو دارالامان لاڑکانہ اور متاثرہ لڑکی کے شوہرکو والدین کی مدعیت میں اغوا کے مقدمہ میں جیل بھیج دیا۔

22 جنوری کو 10 روزبعد جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز بھٹو کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمے میں جنسی زیادتی، دھمکیاں اور ہراساں کرنے کی دفعات شامل کی گئیں

23 جنوری کو جج پر عائد الزامات کی تحقیقات کے لئے پولیس نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ پولیس نے کہا کہ ہائیکورٹ سے اجازت ملنے کے بعد ہی پولیس کیس میں نامزد جج امتیاز بھٹو پر عائد الزامات کی تحقیقات کر سکے گی۔ تحقیقات کی روشنی میں جج امتیاز بھٹو کا ڈی این اے سیمپل لے کرمتاثرہ خاتون کے ڈی این اے سے میچ کیاجا سکے گا۔

وومن ایکشن فورم حیدرآباد کی کوآرڈی نیٹر وومن ایکشن فورم امر سندھو نے کہا کہ بعض گروپ جج کو بچانے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔

24 جنوری کو تفتیش کے لئے جامشورو پولیس نے سول جج امتیازبھٹو کو خط ارسال کیا۔  سندھ ہائی کورٹ کراچی نے جج امتیاز بھٹو کے خلاف تفتیش کی اجازت دی تھی۔ سول جج امتیازبھٹو نے مقدمے میں عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری کرا لی۔ شہداد کوٹ پولیس متاثرہ لڑکی اور شوہر کے نمونے حاصل کرنے کے لئے پہنچ گئی۔ سول جج نے بیان قلمبند اور میڈیکل کرانے کے لئے پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔

25 جنوری کو بھی ملزم سول جج نے پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔ ایس ایس پی جامشورو نے 5 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی۔ خاتون کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔ والدین نے عدالت سے بیٹی کو لے جانے کی اجازت مانگی، عدالت نے مسترد اور مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دی۔ دارالامان سے پولیس نے دوبارہ میڈیکل کرانے کے لئے پھر تحویل میں لے لیا

28 جنوری کو ملزم جج تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ تفتیشی ٹیم اور فرانزک لیبارٹری کا عملہ انتظار کرتا رہ گیا۔

29 جنوری کوسول جج تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بجائے ڈی آئی جی حیدرآباد کے آفس پہنچ گئے۔ سول جج نے تفتیشی ٹیم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریری درخواست دائر کر دی۔

30 جنوری کومعطل سول جج نے عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری میں 4 فروری تک توسیع کرا لی۔ ایس ایس پی جامشورو نے کہاکہ معطل سول جج کے اطمینان کے لئے تفتیش کسی اور ضلع میں ہونی چاہیے۔

31 جنوری کو ڈی آئی جی حیدرآباد نے تفتیش کسی اورضلع کے افسر کو منتقل کرنے کی سفارش کر دی اور درخواست ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کراچی کو بھیج دی۔

3 فروری کو معطل سول جج امتیاز حیسن بھٹو نے جامشورو پولیس کے سامنے بیان قلمبند کرانے اور ڈی این اے کے لیے میڈیکل کرانے سے انکار کر دیا۔

4 فروری کو معطل سول جج ضمانت کے لئے عدالت پہنچ گئے۔ ایڈیشنل سول جج کی رخصت کے باعث درخواست ضمانت پر سماعت نہ ہو سکی۔ عدالت نے 7 فروری کو دوبارہ طلب کر لیا۔

6 فروری ایڈیشنل سیشن جج سیہون نے سیشن جج جامشورو سے باضابطہ طور پر کیس سننے سے معذرت کر لی۔ ایڈییشنل سیشن جج نے کہا کہ معطل جج کے انہوں نے ساتھ کام کیا ہے، اس لئے کیس کو نہیں سن سکتے۔ کیس کو کسی اور عدالت میں منتقل کیا جائے۔

7 فروری زیادتی کیس سیہون کی عدالت سے جامشورو کورٹ منتقل کر دیا گیا۔ معطل سول جج ضمانت کی توسیع کے لئے عدالت نہ پہنچے۔ وکیل نے کہاکہ راستے میں گاڑی خراب ہو گئی۔ عدالت نے ضمانت میں 14 فروری تک توسیع کر دی

پولیس نے کہا کہ اب تک معطل جج نے بیان ریکارڈ کرایا نہ ڈی این اے کرایا۔ عدالت نے جج کے وکیل کو تعاون کرنے کا کہا۔ معطل جج کی درخواست پر تفتیش حیدرآباد منتقل کر دی گئی۔

11 فروری کو معطل سول جج امتیاز بھٹو کو بیان قلمبند کرانے کے لئے سمن جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انکوائری افسر ڈی ایس پی اورنگ زیب عباسی کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم کا اجلاس ہوا۔

13 فروری کو بھی معطل سول جج نئی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

14 فروری کو معطل جج امتیاز بھٹو ایڈیشنل سیشن جج ضلع جامشورو، کوٹری رحمت اللہ موریوکی عدالت ضمانت میں توسیع کے لئے پہنچے۔ عدالت نے معطل جج کو پہلے جے آئی ٹی کے سامنے بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیا۔ معطل جج عدالت کے کہنے پر بالاخر نئی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہو ہی گئے۔ جے آئی ٹی کے سامنے جرم ماننے سے انکار کر دیا۔ معطل جج نے کہاکہ اُن پرلگایا گیا الزام غلط ہے۔ عدالت نے معطل جج کی درخواست ضمانت میں اکیس فروری تک توسیع کر دی۔ عدالت نے حکم دیا کہ ملزم فیصلہ کرے کہ ڈی این اے کہاں سے کرانا ہے۔ ملزم نے میڈیکل کرانے کے لئے وکلاء سے مشورے کے لئے وقت مانگ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments