عوام کا خون پینے والے مافیا کی پیاس کب بجھے گی؟


جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے یہاں مافیا کا راج رہا ہے۔ مہنگائی مافیا، پٹرول مافیا، تعلیم کا مافیا، گندم، چینی، چاول، گھی اورآٹا مافیا، لینڈ مافیا، پیشہ ور بھکاری مافیا، دوائیوں کی قلت پیدا کرنے، انھیں مہنگا بیچنے اورنقلی ادویات بنانے والا مافیا، انسانی اعضاء بیچنے والا مافیا، غیر قانونی طور ر بیرون ملک بھیجنے والا مافیا، بلڈر مافیا، ریت بجری مافیا، امتحانات میں نقل کروانے والا بوٹی مافیا، قبضہ مافیا غرض کہ ملک ہر لحاظ سے مافیا زدہ ہو چکا ہے۔ یہ مافیا برسوں سے عوام کا خون پی رہا ہے لیکن اس کی پیاس بجھنے کی بجائے مزید بڑھتی رہتی ہے۔

کورونا وائرس ملک میں آنے کے بعد حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کی فکر میں ہے، کاروباری افراد کو ذریعہ معاش کی فکر ہے، طلباء کو تعلیم حاصل نہ کرنے کی فکر ہے، مریضوں کو علاج معالجہ کی فکر ہے، رشتہ ازدواج میں بندھنے کے خوہشمند لڑکا لڑکی اس فکر میں ہیں کہ کب ماحول ٹھیک ہوگا اور ان کی شادی ہوگی، ہر کوئی کورونا کی وجہ سے فکر میں ہے ایسے میں مافیا کو اگر فکر ہے تو صرف اور صرف اس بات کی کہ کس طرح لوگوں کی مجبوریوں اورمریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہوئے فائدہ اٹھایا جائے۔

کورونا کی بدلتی صورتحال کے ساتھ ساتھ نئے نئے مافیا بھی وجود میں آرہے ہیں جیسا کہ ابتداء میں سینی ٹائزر اور ماسک مافیا اورپھر کورونا کے علاج میں مددگار ثابت ہونے والی میڈیسنزکا مافیا حتیٰ کہ ایور ویدک اور دیسی علاج کے حوالے سے جب ثنا مکی اور دیگر قہوہ، لونگ، ادرک، بادام، ڈرائی فروٹ، پھل وغیرہ سے علاج کی ریمیڈیز سوشل میڈیا پر گردش ہوئیں تو یہاں بھی مافیا پیچھے نہیں ہٹا اور ایک نیا مافیا بنادیا جس کا نام تھا ”دیسی مافیا“ ۔

اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد نے کورونا کے علاج میں مددگار ثابت ہونے والے انجکشن ایکٹمرکا نام لیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کہیں نام لینے سے یہ بھی مارکیٹ سے غائب نہ ہو جائے۔ بالآخر ایسا ہی ہوا، مافیا امیدوں سے بڑھ کر نکلا اور مارکیٹ سے ایکٹمرا انجکشن اور ڈیکسا میتھازون بھی غائب کردی۔ کورونا کے حوالے سے آج کل ایک اور مافیا سرگرم ہے جس کانام پلازمہ مافیا ہے۔ مافیا یہاں بھی پیچھے نہیں ہٹا، پلازمہ جو دردمند عطیہ کرکے دوسروں کی جان بچاتے ہیں وہیں مافیا نے پلازمہ کا کاروبار شروع کر دیا ہے، لاکھوں روپے کے عوض پلازمہ فروخت کیا جا رہا ہے۔

بلیک میں خریدے ہوئے پلازمہ کی یہ بھی گارنٹی نہیں ہوتی کہ پلازمہ کورونا سے صحت یاب مریض کا ہے یا کسی عام شخص کا۔ پلازمہ کی خریدو فروخت کی وجہ سے غریب مریض پلازمہ ملنے کی امید بھی کھو چکے ہیں۔ علماء کرام کے مطابق عام حالات میں خون کو فروخت کرنا حرام ہے اسی طرح پلازمہ کی فروخت بھی شرعا درست نہیں، اس طرح کا عمل کرنے والا قانونی اور شرعی مجرم ہے۔ بے حس مافیا جس طرح انسانی زندگیوں سے کھیل رہا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ مافیا کا نہ دین ہے اور نہ ہی کوئی ایمان کیونکہ یہی وہ مافیا ہے جو رمضان کے بابرکت مہینے میں ہر وہ شے مہنگی کردیتا ہے جو ایک روزہ دار کو چاہیے ہوتی ہے۔ ثابت ہوا کہ مافیا کا ایک ہی مذہب ہے اور وہ ہے ”پیسہ“

عوام کا خون پینے والامافیاآخر ہے کیا؟ دراصل مافیا منظم جرائم پیشہ گروپ کو کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں مافیا اٹلی کے صقلیہ کے مجرم عناصر کو کہا جاتا تھا، انہیں ”کوسا نوسترا ( (Cosa Nostra بھی کہا جاتا ہے۔ 1863 جب سسیلین مصنف نے ( I Mafiusi di La Vicaria)“ آئی مافیو سی ڈی لا وکاریا ”کے عنوان سے ایک ڈرامہ لکھا اور یہ لفظ اٹلی میں مشہور ہوگیا۔ 1863 سے 1886 تک 23 سال کی مدت میں اس ڈرامے کی اٹلی میں 2 ہزار سے زائد پرفارمنسز ہوئیں۔

صرف دارالحکومت روم میں یہ ڈرامہ 34 اطالوی زبانوں میں ترجمہ کرکے پیش کیا گیا۔ اٹلی کے مشہورصحافی اور سیاسی تجزیہ نگار گیتانو موسکا کے مطابق مافیا کا لفظ 1868 سے پہلے کسی سسیلین لغت میں بھی نہیں تھا۔ یہ لفظ پہلی بار 1868 میں ٹرینا کی سسلی اطالوی لغت میں ایک نئے اورجدیدلفظ کے طور پر شامل کیا گیا۔ فی زمانہ جرائم پیشہ افراد کے منظم گروپ کو مافیا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مافیاکا کام ناجائز ذرائع اختیار کر کے دولت کمانا ہے۔

مافیا پر بین الاقوامی مصنفین کے دس ناول، گاڈ فادر، دی فرم، کون مین کی بیٹی، کچھ نہیں کے لئے، مسٹر ماسٹرک، برف کا شہر، خدا کا مافیا، شانتا رام، کالی آئرش، دھوکہ دہی کے کوڈز بہت مشہور ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ملک کو مافیا کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی جس دن یہ ملک مافیا کے چنگل سے آزاد ہوگیا، ہمارے ملک کو ترقی یافتہ ملک بننے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ یہی وہ مافیا ہے جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکر کے ترقی کی راہ میں سب سے بری رکاوٹ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments