جمہوریت، ہمارے رویے اور مکالمہ


پاکستان کے بہتر ( 72 ) سالہ تاریخ میں دہائیوں سے زیادہ غیر جمہوری قوتوں نے حکومت کی ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ نظام حکومت کا اثر براہ راست عوام اور معاشرہ پر پڑتا ہے، اگر کسی ملک میں عوام کا سیاسی وسماجی شعور، برداشت، مکالمے کا شعوراور سماجی اخلاقیات کا معیار معلوم کرنا ہو تو سب سے پہلے وہاں کے نظام حکومت کا جائزہ لینا ہوگا، اگر اس ملک میں آمریت بادشاہت یا پھر کسی طرح خاندانی حکومت ہو، تو وہاں بنیادی انسانی حقوق کا پامال ہونا معمول کی بات ہوگی۔

اگر ہم خاص طور پر پاکستان اور عموماً مسلم اکثریت والے ممالک کی بات کریں تو ان میں مذکورہ بالا مسائل موجود ہیں، مذکورہ طرز حکومتیں تنقید اور اظہار رائے کی آزادی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں، اور وہاں کا میڈیا ریاستی کنٹرول میں ہوتا ہے جو ریاست کے ناجائز اور غیر انسانی مفاد کے لئے دن رات عوام کی ذہن سازی کرتا ہے۔ جس کے لئے آج کل ”مثبت رپورٹنگ“ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

وطن عزیز میں بھی بہتر ( 72 ) سال سے یہی کچھ ہوتا رہا ہے علانیہ اور غیر علانیہ آمریت کی وجہ سے یہاں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہلی ہی کنٹرول ہے اور اب سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے منصوبے تیار ہو رہے ہیں۔ جبر کے اس جامد حالت میں ہماری قوم کی وہ ذہنی تربیت نہیں ہوئی جو جمہوری معاشرے کا حسن ہے۔ ہمارے سماجی رویے بھی کچھ اسی طرح سے بن گئے ہیں جس میں سوچ وفکر اور عقل ومنطق والے پہلو نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہمارے ہاں ہر مسئلے کا حل ڈنڈا اور تشدد بتایا جاتا ہے۔ بچوں پر ذہنی اور جسمانی تشدد بھی اس سوچ کی عکاس ہے۔ ملک کے نویں فیصد عوام معمولی جرم پرسر عام لٹکانے کی سزا تو چوک اور چوراہے پر سناتے ہیں۔ مسجد کی ٹونٹی چرانے والوں کو مار مار کر لہو لہان کرنا عام سی بات ہے۔ سیاسی لوگوں کو صبح وشام گالی دینا سب سے آسان کام ہے۔ ملک کے اکثر لوگ بشمول یونیورسٹی سے پڑھا ہوا طبقہ بھی یہ کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ اس ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو لٹکا کر ہی انصاف اور عدل قائم ہوگا۔

اب اس طبقے کو یہ کون سمجھائے؟ کہ کچھ دو سو تین سال پیشتر یہی حالات موجودہ یورپ یعنی سلطنت روم میں بھی ہوتے تھے۔ لیکن وہاں بتدریج یہ فکری انقلاب آیا۔ اس عظیم محل کی تعمیر میں سینکڑوں ادیبوں، سائنسدانوں اور دانشوروں کا خون پسینہ شامل ہیں۔ جس نے پاپائے اعظم کے اختیارات کو چیلنج کیا تھا ان سے گناہ بخشنے کا اختیار واپس لیا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے عوام کے لئے بائبل کا آسان ترجمہ کیا اور سب کو سمجھنے اور تشریح کا حق دے دیا۔

جس کی وجہ سے مارٹن لوتھر پر زندیق اور کفر کے فتوے لگے، اس نے کیتھولک کے مقابلے میں اپنا ایک متوازی فرقہ بنایا جس کو پروٹسٹنٹ کہے جانے لگا۔ اس فرقے نے مسیحیت کے احیاء کا دعوا کیا اور کیتھولک کے تمام پرانے اور فرسودہ طریقوں پر جرح کی، اس نے مسیحیت میں بڑے پیمانے پر (Reformation) یعنی اصلاحات کیے جس کی وجہ سے سائنس کے لئے راستہ ہموار ہوا۔ بد قسمتی سے ہمارے مذہبی علماء کا رویہ صدیوں سے مسیحی پادریوں کی طرح رہا ہے جو ہر جدید چیز خواہ وہ پرنٹنگ مشین ہو، ٹیلی ویژن یا پھر کیمرہ ہو پہلے فرصت میں تو حرام قرار دیتے ہیں اور پھر معاشرتی دباؤ یا وہ چیز جب معاشرے کا جز لازم بن جاتی ہے اور اس کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں گھومتا تو پھر کہیں جا کر حلال ہوجاتا ہے۔ آپ ہر ایجاد کے ساتھ یہ معاملہ دیکھے گے گھڑیال سے لے کر موبائل فون تک۔

جمہوریت پسند معاشروں میں کوئی فرد یا گروہ عوام کے لئے کیا بہتر ہے؟ اور کیا بہتر نہیں ہے؟ اس کا فیصلہ محض ایک فرد یا گروہ اتنی آسانی سے نہیں کر سکتا بلکہ ان موضوعات میں سب سے پہلے پارلیمان میں مباحثہ ہوتا ہے اور پھر عوامی مقامات میں جیسے ٹیلی ویژن وغیرہ میں مختلف ماہرین علم وفن کو بلا کر ان کے رائے سنی جاتی ہیں ان سے سوال وجواب ہوجاتا ہے۔ جامعات میں ان موضوعات پر گرما گرم مباحث ہوتے ہیں۔ تب کہیں جاکر اس قانون کا اطلاق پارلیمان کے اکثریت کے بعد ہوجاتا ہے۔

بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اساتذہ کرام، پروفیسر صاحبان اور خاص کر مذہبی علماء اگر وقت کی آواز کو سنے، تو یہی وہ طبقات ہیں جو معاشرے کو بتدریج عدم تشدد اور برداشت کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ان تین طبقوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شاگردوں میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھائے اور ان کو سوال وجواب کی آزادی دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments