سالگرہ مبارک ہو بابا!


آج بابا کی سالگرہ ہے۔ بچوں کی عمر بڑھتی ہے تو ماں باپ کو خوشی ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے ماں باپ کی عمر بڑھتی ہے بچے فکر مند ہوتے جاتے ہیں۔ اس عمر میں بھی بابا صحت مند اور متحرک ہیں جنہیں دیکھ کر دل بڑھتا ہے اور دعا نکلتی ہے کہ وہ یونہی ہم پر سایہ کیے رہیں۔ بابا کی سالگرہ آئی تو ذہن سرائے میں یادوں کے ایک طویل کارواں  نے آ کر پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ ماضی کے البم کی جذباتی کر دینے والی تصویریں آپ ہی آپ کھل کر سامنے آتی چلی جا رہی ہیں۔

بچپن سے ہی میری طبیعت کچھ ایسی تھی کہ کسی خاص کھیل میں دل نہیں لگا۔ کسی ہم عمر سے ایسی دوستی بھی نہیں ہوئی کہ جس کے ساتھ وقت گزاری ہوتی تو میں نے بابا کو ہی اپنا دوست بنا لیا۔ یہ دوستی اب تک جاری ہے۔ بابا نے ہم بہن بھائیوں کے لئے طرح طرح کے قیمتی کھلونوں کا انبار تو نہیں لگایا البتہ ہمارے آس پاس تعلیم کے کھلونے ضرور سجا دیے۔ ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ ڈاکیا آئے دن کوئی نہ کوئی لفافہ دروازے پر پکڑا کر چلا جاتا۔

سمجھ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان میں بچوں کے رسالے اور کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ پیام تعلیم، امنگ، ہلال، نرالی دنیا اور نہ جانے کون کون سے جریدے پابندی سے آیا کرتے۔ مجھ سے بڑے بھائی بہن چھین جھپٹ کر کے انہیں جلدی ہی پڑھ ڈالتے۔ حرف شناسی کے لائق ہوا تو میں بھی اس کھیل کا حصہ بن گیا۔ گھر میں لمبے لمبے منی آرڈر فارمز کا گڈا دھرا تھا جن کا استعمال رسالوں کا سالانہ چندہ اور کتابوں کی قیمت بھیجنے میں ہوتا۔

بدھ کے دن بستی میں بازار لگا کرتا تھا جہاں سے بستی اور آس پاس کے دیہات کے لوگ ضرورت کا سامان خریدا کرتے۔ بابا تو بازار جاتے ہی تھے ، بعد میں ہمیں بھی لے جانے لگے۔ بازار پہنچتے ہی لیموں اور مصالحے کے شربت یا قیمے کے سموسے یا چھولے یا دہی بڑے سے ہماری ضیافت ہوتی اور پھر سامان خریدا جاتا۔ واپسی میں ہم تین بھائی رکشے پر لدھ کر گھر پہنچتے۔

ہم نے بابا کو بیمار پڑتے بہت کم دیکھا تھا ، اس لئے اس روز بدھ بازار جاتے ہوئے جب ہم نے ان کی طبیعت خراب محسوس کی تو گھبراہٹ ہوئی۔ ان کے چہرے سے تھکن بہت نمایاں تھی اور شاید بخار بھی تھا۔ راستے میں واقع ایک کلینک میں رک کر بابا نے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ہم تینوں کو علم نہیں کہ ڈاکٹر نے کیا کہا البتہ کچھ ایسا سمجھ میں آیا کہ وہ ان سے بوتل چڑھوا لینے کے لئے کہہ رہا ہے۔ بابا نے مشورہ فیس دی اور شکریہ ادا کر کے بنا بوتل چڑھوائے وہاں سے نکل آئے۔

اسی حالت میں وہ بازار پہنچے اور سامان خریدنا شروع کیا۔ البتہ اس دن ایک بات خلاف معمول نظر آئی۔ عام طور پر بابا جتنی مقدار میں چیزیں لیا کرتے تھے ، اس دن اس سے زیادہ مقدار میں خریداری کی۔ واپس گھر پہنچے تو بابا کی تھکن مزید بڑھ چکی تھی۔ امی نے سامان کے تھیلے کھول کر دیکھے تو پوچھا کہ آج اتنا کیوں خرید لیا؟ بابا نے کمزور لہجے میں جو الفاظ کہے وہ میرے کانوں میں آج بھی ویسے ہی تازہ ہیں ”طبیعت ٹھیک نہیں ہے پتہ نہیں اگلے ہفتے جانا ہو یا۔۔۔“

امی نے تڑپ کر ان کا جملہ وہیں کاٹ دیا اور بولیں ”نہ ایسی بات مت کرو، خیر سے جائیو بچوں کے ساتھ“ ۔

آج بابا کی سالگرہ پر وہ جملہ یاد آیا تو دل کرتا ہے کہ اس سالگرہ کی بابا کے بجائے امی کو مبارکباد دوں۔

بابا کے ساتھ اتنی یادیں ہیں کہ لکھوں تو کتاب بن جائے۔ مئی کا مہینہ ہے مجھے داخلہ امتحان دلانے دہلی لا رہے ہیں۔ کچھ ایسا کنفیوژن ہوا کہ جس ٹرین میں چڑھے وہ کہیں اور جا رہی تھی۔ کافی دیر بعد جب اس کا اندازہ ہوا تو بڑی فکر ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین ایک سنسان سے اسٹیشن پر کسی دوسری ٹرین کو راستہ دینے کے لئے رکی تو ہم دونوں جلدی سے وہیں اتر گئے۔ اب یوں ہے کہ چلچلاتی دوپہر میں ایک ویران اور بے سائبان اسٹیشن پر ہم کھڑے ہیں۔کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی کوئی بتانے والا ہے کہ اگلی ٹرین کب آئے گی؟

بابا کی نگاہیں طویل مگر ویران پلیٹ فارم پر نہ جانے کیا تلاش کر رہی ہیں۔ پھر جس چیز کی کھوج میں تھے ، وہ انہیں مل گئی۔ ایک چھوٹی سی مقفل کوٹھری کے پاس دیوار کی وجہ سے سایہ تھا لیکن بمشکل ایک آدمی لائق۔ بابا نے سامان کھولا اور کوئی پرانا اخبار نکال کر وہاں لے جا بچھایا۔ پھر مجھے حکم ہوا کہ ’جاؤ وہاں سائے میں بیٹھ جاؤ‘ ۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ بیٹھ جائیں لیکن نہیں مانے اور پھر مجھے بٹھانے کے لئے ذرا سختی سے حکم دیا۔ میں جا کر بیٹھ گیا اور وہ خود دھوپ میں سامان کے ساتھ کھڑے رہے۔ میں سائے میں ہونے کے باوجود ان پر پڑ رہے سورج کی تپش خود میں محسوس کرتا رہا۔

اب انہیں ایک اور جستجو ہوئی اور سامان وہیں چھوڑ کر ایک طرف کو چلے گئے۔ اسٹیشن سے کافی فاصلے پر ایک چھپر میں چھوٹی سی دکان تھی، میں نے انہیں وہاں جاتے دیکھا۔ واپس آئے تو ہاتھ میں میرے لئے فروٹی اور پارلے جی کا پیکٹ تھا۔ پتہ نہیں کیا مصلحت تھی کہ انہوں نے خود کچھ نہیں کھایا۔

کیسی کیسی باتیں ہیں جو بابا کی سالگرہ پر یاد آتی چلی جا رہی ہیں۔ بڑا بھائی برسوں بعد بیرون ملک سے واپس آ رہا ہے۔ امی بابا اور میں اسے لینے کے لئے ہوائی اڈے پہنچے ہوئے ہیں۔ دلی کا یہاں سے وہاں تک پھیلا ہوا ائیرپورٹ۔ پتہ نہیں بھائی کس گیٹ سے نکلے گا؟ طے ہوا کہ ایک گیٹ پر امی اور میں کھڑے ہو کر ہر آنے والے مسافر میں بھائی کو تلاش کریں گے اور دوسرے گیٹ پر بابا نظر رکھیں گے۔ اتفاق دیکھیے کہ بھائی ہمارے گیٹ سے نکلا۔

ہم سے ملا اور پھر ہم اسے وہاں لے گئے جہاں بابا گیٹ سے نکلنے والے ہر مسافر میں اپنے بیٹے کو تلاش کر رہے تھے۔ بھائی نے پیچھے سے جا کر بابا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پکارا۔ ’بابا‘ ۔ بابا تیزی سے مڑے تو دیکھا کہ بیٹا سامنے کھڑا تھا۔ چھ سات برس بعد اسے دیکھ رہے تھے۔ چند لمحے خالی نگاہوں سے دیکھتے رہے اور پھر۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ہمارے بزرگ اور سخت مزاج سمجھے جانے والے بابا بنا کچھ کہے بھائی کے کندھے سے لگ گئے۔ ان کی آنکھوں کے آنسو میں کافی فاصلے سے صاف دیکھ سکتا تھا۔

کون کون سی باتیں یاد آتی چلی جا رہی ہیں۔ ایک بار امی اسپتال میں داخل تھیں۔ بیڈ کے ایک طرف بابا بیٹھے تھے اور دوسری طرف میں۔ امی کو اٹھنے کی حاجت ہوئی تو میں نے ان کے سرہانے کا وہ سوئچ دبایا جس سے نرس کو طلب کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ نرس آ پاتی ، بابا امی کے بازو کو سہارا دے کر چپل پہننے میں ان کی مدد کر رہے تھے۔ نرس اور میرے مدد کی پیش کش کرنے کے باوجود وہ ہی امی کو سہارا دیتے ہوئے وہاں لے گئے جہاں انہیں جانا تھا۔ پھر وہیں انتظار کیا اور امی کو سنبھالتے ہوئے واپس لاکر بیڈ پر بٹھا دیا۔ اسپتال میں امی کی گھبراہٹ دور کرنے کے لئے ان کا گھنٹوں ان سے باتیں کرنا مجھے خوب یاد ہے۔

ایک تحریر میں کتنی یادیں سمیٹوں؟ آج میرے بورڈ امتحان کا نتیجہ آ رہا ہے۔ میرے ساتھ رزلٹ دیکھنے انٹرنیٹ کیفے جا رہے ہیں اور سارے راستے سمجھاتے جا رہے ہیں کہ امتحان میں کامیابی ناکامی سب ہوتی ہے، کم زیادہ نمبر آتے رہتے ہیں، ایسی چیزوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ گویا نتیجہ حسب امید نہ ہو تو میری طرف سے اس کی خود ہی تاویل کر رہے ہیں۔ نتیجہ چیک کیا تو امید سے بھی اچھا تھا۔ اب واپسی میں وہی بابا میری کامیابی پر شاباشی دے رہے ہیں۔ راستے میں ایک حلوائی کے یہاں سے میری پسندیدہ مٹھائی گلاب جامن بندھوا رہے ہیں اور میری کامیابی کے بارے میں اسے لہک لہک کر بتا رہے ہیں۔

میں بہت دنوں بعد گھر گیا ہوں اور بابا میری خاطر داری میں دوڑے پھر رہے ہیں۔ بچپن میں جو کچھ مجھے پسند رہا ہو گا وہ ساری نمکین میٹھی چیزیں خرید خرید کر لا رہے ہیں۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اب میں بڑا ہو چکا ہوں۔ میری پسند کی چیزیں پکانے کی ہدایتیں دی جا رہی ہیں۔ چائے پینا کم کر دیا ہے لیکن میری چائے کی لت کا احترام کرتے ہوئے میرے ساتھ ہر ایک دو گھنٹے میں چائے پی رہے ہیں۔ امی مجھے بار بار بتا رہی ہیں ”یہ تیرے ساتھ اتنی چائے پی رہے ہیں ورنہ انہوں نے چائے چھوڑ دی ہے۔“

بابا سے متعلق یہ یادیں نہ جانے کیوں مجھے علامتی اعتبار سے بہت خاص محسوس ہوتی ہیں۔ یہ متفرق باتیں مجھے بابا کے خون دل سے لکھی گئی کوئی عبارت معلوم ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لئے ان کی ہر قربانی کا عکس ان آئینوں میں نمایاں ہو گیا ہے۔

بابا کی سالگرہ پر میں ان کی لمبی عمر کی دعا تو کرتا ہی ہوں لیکن خاص طور پر ان کے چہرے کی ایک مخصوص مسکراہٹ کے دوام کی تمنا بھی کرتا ہوں۔ اب یہ بھی سن لیجیے کہ ان کا یہ دلکش تبسم کب ظاہر ہوتا ہے؟ جب میں بہت دن بعد گھر جاتا ہوں تو بابا ہر آن چہکتے ہیں لیکن جیسے جیسے میرے واپس شہر آنے کا وقت قریب آتا جاتا ہے، بابا چپ چپ سے ہونے لگتے ہیں۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ میں ان سے کہتا ہوں ”میں آج نہیں جا رہا ابھی ایک دن اور رکوں گا“ ۔

بس یہی وہ وقت ہوتا ہے جب میری یہ بات سن کر بابا کے چہرے پر وہی مخصوص مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے اور وہ پھر سے چہکنے لگتے ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter