ہم ڈسپوزیبل جذبوں کے عہد کے لوگ


انسانی نفسیات پہ ماحول کا بڑا اثر ہے اور ماحول کی ضرورت کچھ معاملات میں بہت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً کوئی ڈاکٹری پڑھنے والا طالبعلم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں گھر میں ہی رہ کر درسی کتابیں پڑھ لیتا ہوں اور سال بعد امتحان دے دیا کروں گا۔ ایسا عملاً ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹری کے خواہشمند کو ڈاکٹر بنانے والے ماحول میں جانا ہی پڑے گا۔ وہاں ہونے والی تمام درسی اور نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا پڑے گا تب ہی اسے منزل کا سرا ملے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ کم وبیش زندگی کے باقی پہلوؤں میں ہے۔

ماضی بعید، ماضی قریب اور حال میں ہمارے اردگرد کے ماحول کی تبدیلی نے مجموعی طور پہ ہماری نفسیات پہ بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان کے اثرات ہماری ذات، بات اور عمل ہر چیز تک میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم کسی خودکار طریقے سے اس تبدیلی کی سانچے میں ڈھل گئے ہیں اور ڈھل بھی ایسے گئے ہیں کہ اس میں پوری طرح نہ ڈھلا ہوا شخص ہمیں منفرد نہیں لگتا بلکہ وہ ہمیں بیوقوف، کند ذہن، مافوق الفطرت اور ایک منقطع شخصیت لگتا ہے۔ چار و ناچار ہر ایک کو ایسے ماحول میں رنگنا ہی پڑتا ہے تاکہ یکسانیت قائم رہے۔ ویسے بھی یہاں، انفرادیت کو نرگسیت کا طعنہ دینے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔

ماضی بعید میں گلی گلی آواز سننے کو مل جاتی تھی کہ ’بھانڈے قلعی کرا لو‘ کیونکہ سب کے ہاں پیتل کے برتن کا استعمال عام تھا اور رواج بھی یہی تھا۔ برسوں یہ برتن استعمال ہوتے تھے، کئی کئی دفعہ قلعی کروا کے بھی استعمال جاری رہتا تھا کہ کسی کو اس میں سے اپنی ماں کی خوشبو آتی تھی تو کسی کو اپنے داج سے پیار تھا۔ ’پانڈے قلعی کرانے‘ والی آواز آنا کیا بند ہوئی اس نے ہمارے معاشرے کی قلعی کھول کے رکھ دی۔ اس آواز نے شاید سب کو باندھ کے رکھا ہوا تھا، سب کی بنیادیں ایک ہی مٹی سے تھیں، یہ آواز رکی تو ساتھ ہی افراتفری اور نفسا نفسی کا ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ کشتوں کے پشتے کیا لگتے، الٹا پشتوں کو کشتے لگوانے پڑ گے۔

ماضی قریب کی تیز رفتار تبدیلیوں نے بہت فریب دیے، پیتل سے سٹین لیس سٹیل کا سفر جس شد و مد سے طے ہوا، اس نے ہماری اصل ہی ہم سے چھین لی۔ راستے کی سرپٹ دوڑ نے نہ صرف سانس پھلائے رکھا بلکہ ہمارے اوسان بھی خطا کیے رکھے۔ سب سے پہلے تو اس نے خاندان کا، دوستوں کا، میلوں کا، محفلوں کا اور ہماری اجتماعیت کا شیرازہ بکھیرا۔ اس پر فنی اور تکنیکی ترقی کی یک لخت چھلانگ نے صرصر کا سا فریضہ انجام دیا۔ یعنی ایسا بکھیر دیا کہ سمیٹنے سے پہلے بھی سوچنا پڑے کہ اسے سمیٹنا زیادہ موزوں ہے یا اسے نئے سرے سے بنانا زیادہ ناگزیر ہو گیا ہے۔

حال تو ہمارا ایسا درخشاں ہو گیا ہے کہ بے اختیار شوکی خان یاد آ جاتا ہے جو کبھی ترنگ میں کہا کرتا تھا کہ ’نہ حال چنگا نہ مستقبل۔ نرا جمن دا بل‘ ۔ اب تو ہم سٹین لیس سٹیل سے بھی آگے نکل گئے۔ فائیو جی کا دور ہے، زندگی تیز تر ہو گئی ہے۔ پیچھے مڑ کے دیکھنے والا پتھر کا نہیں ہوتا، وہیں ساکت ہو کے گر جاتا ہے اور یاد ماضی ہی کی طرح مٹ جاتا ہے۔

اب ہمارے پاس سمیٹنے کا وقت نہیں چاہے وہ بات ہو، جذبات ہوں یا برتن۔ تیز رفتاری کی اس حد کو پکڑنے کے لئے ہم نے ڈیسپوزیبل کی اصطلاح نکال لی ہے۔ کھایا، پیا، استعمال کیا اور لپیٹ لپاٹ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ البتہ کوڑے دان کا اہتمام ہم نے سیکھ لیا کہ روز کا گند روز اٹھتا رہے کیونکہ ’روڑی‘ کی بھی آخر چالیس سال بعد سنی ہی جاتی ہے۔

تینوں ادوار دیکھ لینے کے بعد مستقبل کا فیصلہ نہایت اہم حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ایسے ہی ڈسپوز آف ہوتے اور کرتے رہنا ہے تو پھر کسی ہسپتال کے پلنگ پہ لیٹے ہوئے ماضی میں جھانکنا عذاب بن جائے گا۔ اور اگر آخری وقت میں کسی کے لمس کا احساس اور کسی کے جذبے کا پاس چاہیے تو ٹشو پیپر اور ڈسپوزیبل برتنوں کے ساتھ پانی کے لیے کانچ کا گلاس، چٹنی کے لئے پیتل کی کٹوری اور روٹی رکھنے کو تنکوں سے بنی کوئی چنگیر ساتھ ضرور رکھ لیں۔ اس تیز رفتار دور میں بھی یہ چیزیں مل سکتی ہیں، صرف اپنے گرد دیکھنے، ڈھونڈنے اور تھوڑا دور تک چلنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).