متحیر اقبالؔ کا مجسمہ


گلشن اقبال پارک لاہور میں استادہ اقبالی مجسمے پر لوگ ہزار پھبتیاں کس لیں لیکن بہرحال یہ علامہ محمد اقبال ہی کا مجسمہ ہے، سو فی صد اقبال کا۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ ”مفکر اقبال“ کا نہیں بلکہ ایک ”متحیر اقبال“ کا مجسمہ ہے۔ بچپن سے ہم جس علامہ اقبال کی تصاویر کتابوں میں دیکھتے آئے ہیں ، وہ ایک ”مفکر اقبال“ ہوا کرتا تھا۔ ان تصاویر میں بیشک علامہ صاحب کے دائیں ہاتھ میں قلم ہوا کرتا تھا تاہم وہ ہمیشہ مسلماناں ہند کے روشن مستقبل کی فکر میں اپنا سر قدرے جھکائے ہوئے مستغرق نظر آتے تھے۔

اپنی اس فکر عظیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے نہ صرف دن رات مغز کھپائی کر کے کمال کی شاعری اور اعلیٰ درجے کے مقالات و مضامین تخلیق کیے بلکہ محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر زبوں حال ہندی مسلمانوں کے لیے ایک نئی مملکت کے قیام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اقبال پھر ہم کو الوداع کہہ گئے اور نو برس بعد ان کا خواب حقیقت بن کر باقاعدہ طور پر ایک مملکت وجود میں آ گئی۔ اس مملکت کے قیام کو اب تہتر برس تو بیت گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہ اقبال اور جناح کا پاکستان نہیں دکھتا، قطعاً نہیں دکھتا۔

ہاں تو پارک میں ان دنوں علامہ صاحب کا جو مجسمہ سامنے آیا ہے ، وہ حیرت میں ڈوبے ہوئے ایک پریشان حال اقبال کا مجسمہ ہے جو بہ زبان حال بتا رہا ہے کہ مجھے (اقبال) اس وقت جو پاکستان نظر آ رہا ہے وہ نہ تو میرا اور نہ ہی محمد علی جناح کا پاکستان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مجسمے میں اقبال حیران ہیں کہ ”انہوں نے مسلماناں ہند کی تقسیم کا رسک لیا، بڑے بڑے دیوبندی علما، صلحا اور عبقری سیاستدانوں کی ناراضگی مول لے کر مسلمانوں کے لئے علیحدہ گھر بنایا تھا لیکن بد قسمتی سے اب یہ گھر کم اور کھنڈر زیادہ لگتا ہے۔ حضرت اقبال فکرمند ہیں کہ انہوں نے طویل محنت شاقہ کے بعد اپنے شاہینوں کے لئے گویا ایک گلستان اہتمام کیا تھا لیکن بد قسمتی سے اب اس کے پیڑوں کی ہر شاخ پہ الو بیٹھا نظر آتا ہے۔

قارئین کرام! اگر بنظر غائر اس مجسمے کا جائزہ لیں تو اقبال مایوس لگتے ہیں کہ ”اس گھر میں آخر انہیں شاہین کیوں نظرنہیں آتے اور ہرطرف کرگسوں کا راج کیوں ہے؟ کسے معلوم نہیں کہ حضرت اقبال کو اس دیس میں خوددار لوگ اور رجال کار چاہیے تھے اور حال یہ ہے کہ یہ اب انہیں مطلق بھکاری اور کام چور نظر آ رہے ہیں؟

دقیق نظروں سے دیکھا جائے تو اقبال اس تصویر میں رو بھی رہا ہے کیونکہ اس گھر میں انہیں بنگالی نظر نہیں آتے۔ وہ بنگالی جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر اقبال اور جناح کا خواب تو شرمندہ تعبیر کر دیا تھا لیکن ایک مشترک گھر کی تعمیر کے بعد ان کا جینا حرام کر دیا گیا۔ اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ انہیں ناسور سمجھ کر ہمارے ڈنڈا برداروں نے لہولہان کر کے اقبال کی دھرتی سے نکال دیا۔ اقبال کو اس وقت ملک میں آئین نام کی ایک دستاویز تو نظر آ رہی ہے لیکن اس بیچارے کی وقعت ملا نصرالدین کی لطیفوں والی کتاب سی رہ گئی ہے۔

ڈنڈا بردار آمر باری باری اس اہم دستاویز کو اپنے بوٹوں تلے روند چکے ہیں لیکن پھر بھی محب وطن مانے جاتے ہیں۔ اقبال کو ایوان بالا اور ایوان زیریں نام کی دو عظیم الجثہ عمارتیں تو نظر آ رہی ہے تاہم انہیں ان ایوانوں میں بیٹھنے والے لوگ ”مرفوع القلم“ لگتے ہیں۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اقبال کو علم ہے کہ ان بے چاروں کے اچھے اور نہ ہی برے اعمال کا شمار ہوتا ہے جو کہ ملک کی تقدیر پر اثرانداز ہو سکیں۔

علامہ صاحب کو اسی شاہراہ دستور پر فاضل عدالت کے نام سے ایک اور عالی شان عمارت تو دکھائی دیتی ہے لیکن وہاں پر رکھی گئی میزان سے انہیں خُسران (کمی وبیشی) ٹپکتی نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ کسی قاضی القضاۃ صاحب (الاماشاء اللہ ) کو مجال نہیں کہ اس اہم منصب کی لاج رکھ کر حق و باطل کی تمیز کر سکیں۔ علامہ صاحب کے چہرے پر افسردگی طاری ہے ، وہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک چند ایسے طبقات کے نرغے میں نظر آ رہا ہے جو ان کے خواب کو جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر ان میں ایک طبقہ اشرافیہ (جوکہ حقیت میں اشراریہ ہے ) ہے جن کی بدعنوانی، جاگیردارانہ سوچ، اقربا پروری اور رشوت خوری کی وجہ سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ جن کے محلات اور فارم ہاؤسزکے عقب میں دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے لوگ خود سوزیاں کر رہے ہیں۔ جن کی حرص اور لالچ نے اس دیس کو بحرانوں اور مسائل کے بھنور میں لا کھڑا کیا ہے۔ علامہ صاحب ایک اور طبقے پر سخت برہم دکھائی دیتے ہیں جس کا اصل کام تو ملکی سرحدات کی حفاظت ہے لیکن اسے سیاست کا چسکا بھی لگا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ یہ محافظ ملکی حفاظت کے نام پر اس دیس کے سیاہ و سفید پر قابض ہو کر اب خوب توانا اور قوی ہو چکے ہیں۔ اس طبقے کے لوگ خود کو اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کو تو محبان وطن سمجھتے ہیں لیکن ان کی نظر میں وہ بے چارے پرلے درجے کے غدار اور خائن سمجھے جاتے ہیں جو انہیں حد سے تجاوز کرنے پر ٹوکتے ہیں اور مؤدبانہ طور پر ان سے اپنے کام سے کام رکھنے کی درخواست کرتے ہیں۔

علامہ صاحب گلشن پارک سے ملک کے سیاست دانوں کے بارے میں بھی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں اس ٹولے میں سیاست دان بہت کم اور مال بنانے والے، وفاداریاں بدلنے والے اور یوٹرن لینے والے زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طبقے نے اگر حقیقت میں سیاست جیسے مبارک کام کا بھرم رکھا ہوتا تو ملک میں یہ ہلڑ بازی اور دما دم مست قلندر نہ ہوتا۔ اس مجسمے کو دیکھ کر مجھے علامہ صاحب اتنے پریشان لگتے ہیں کہ گویا ان کی آنکھیں کثرت بکاء کی وجہ سے پتھرا گئیں ہیں اور وہ مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی غزل کا یہ مطلع کچھ ترمیم کے ساتھ گنگنا رہے ہیں۔

بازیچۂ اطفال ہے یہ دھرتی میرے آگے
ہوتی ہے شب و روز ہلڑبازی میرے آگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).